Time 25 اکتوبر ، 2017
بلاگ

زرداری کی بساط

دنیا بھر کے نامور مقررین اور خطیب عمر خیام کی شاعری کے حوالے دے کر اپنے دلائل کو پراثر بناتے ہیں۔ عمر خیام فارسی شاعر ہی نہیں ریاضی دان اور سائنسدان بھی تھے۔ ورلڈ ٹاپ اسپیکر سابق امریکی صدر بل کلنٹن ہوں یا برطانوی سفارتکار لارڈ بیرنگٹن، شعلہ بیان سیاہ فام امریکی لیڈر مارٹن لوتھرکنگ جونیئر ہوں یا پھر عشق و سرور کے لاکھوں پجاری، سب عمرخیام کے قائل ہیں۔

اسی عمرخیام نے شطرنج کے کھیل سے زندگی کے جبر کو تشبیہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’دنیا دن اور رات سے بنی ہوئی شطرنج کی بساط ہے جہاں قسمت آدمیوں کو مہرے بنا کر کھیلتی ہے، انہیں اِدھر اُدھر چلاتی، مارتی اور مات دیتی ہے۔ یہاں تک کہ ان سب آدمیوں کو عدم کی طرف بھیج دیتی ہے۔‘‘ سابق صدر آصف زرداری عمرخیام کی جبریت سے متاثر ہوں یا نہ ہوں مگر اردو شاعری کے مداح ضرور ہیں۔ آج کل وہ رات گئے احمد فراز کی شاعری سنتے ہیں۔ زرداری صاحب سیاسی بساط پر اپنے مہرے بڑے تحمل اور احتیاط سے کھیلتے ہیں۔ اب بھی وہ بازی سجانے کوتیاربیٹھے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بازی جیتے گا کون؟

باوجود کئی بیماریوں کے سابق صدر زرداری کی یادداشت بہت تیزہے۔میرے حوالے سے انہیں صدارت کے آخری دن کیا گیا یہ سوال بھول نہیں پا رہا کہ ’’آپ تو سیاسی شطرنج کے ماہر ترین کھلاڑی ہیں۔ 2013کے الیکشن میں شہ مات کیوں ہوگئی؟‘‘ ’’ ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ پروگرام میں پوچھا گیا یہ سوال ہماری ہر ملاقات میں زیربحث آتا ہے۔ گزشتہ روز لاہور کے بلاول ہائوس میں ہونے والی ملاقات میں بھی اسی سوال کی بازگشت رہی۔

سابق صدر کا استدلال یہ تھا کہ 2013میں نواز شریف نے انہیں آر اوز کے ذریعے مات دی تھی اور یہ مات بھی گھات لگا کر دی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے دور ِ حکومت میں نون لیگ کو ترقیاتی فنڈز بھی دیتی رہی، ان کو حکومتی مراعات بھی دیں لیکن وہ ہم پر الزامات لگاتے رہے۔ پشت میں چھرا گھونپتے رہے۔ ہم انہیں شرارتی اتحادی سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے۔ مگر جب نواز شریف اقتدار میںآئے تو ان کا اصل چہرہ نظر آیا۔

ہمارے اراکین اسمبلی اور سابق وزرا سے مخالفوں والا سلوک شروع ہو گیا۔ اور تو اور اتفاق رائےسے مقرر کئے گئے نیب کے چیئرمین قمرالزمان چوہدری نے ن لیگ کی پشت پناہی سے حدیں ہی عبور کرڈالیں۔ یوسف رضا گیلانی اور دوسرے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر جھوٹے اوربے بنیاد مقدمات بنائے گئے۔ ڈاکٹرعاصم کے ذمے وہ جرائم ڈالے گئے جو انہو ںنے کئے ہی نہیں تھے۔ صدر زرداری کا خیال ہے کہ نواز شریف نے ان سے جب ملاقات منسوخ کی تھی اسی وقت انہیں یقین ہو گیا تھا کہ نوازشریف خود تو مشکل میں مدد لیتے ہیں مگر مفاد نکلنے کے بعد بدل جاتے ہیں۔

شطرنج کی بازی کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ ابھی کسی کو علم نہیں۔ ایک طرف زرداری صاحب بساط بچھائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف فیصلہ ساز بھی اپنے مہرے، پیادے، گھوڑے، فیل اور توپیں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سب نیا نہیں تاریخ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ صلیبی جنگوں کے دوران مسلمان اور عیسائی دونوں طرف کی سپاہ اپنے اپنے کیمپوں میں شطرنج کی بازی لگایا کرتی تھیں۔

نامور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو شطرنج کی ایک بساط تحفے میں دی تھی۔ اور تو اور حشیشین کے سربراہ شیخ الجبال حسن بن صباح نے ایک خوبصورت بساط سینٹ لوئی کو ہدیتاً دی تھی۔ شطرنج سیاست میں منصوبہ بندی کا استعارہ بھی ہے اور یہ میدانِ جنگ کے گُر بھی سکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست کے اکثر فریق شطرنج کھیلیں یا نہ کھیلیں چالیں اس کھیل والی ہی چلتے ہیں۔

ایسی ہی ایک چال نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تقرری ہے۔ پیپلزپارٹی نے ایسے نام دیئے جن میں یہی فاضل جج صاحب سب سے زیادہ قابل قبول اور اس عہدے کے لئے واحد مناسب امیدوار تھے۔ ن لیگ اختلاف کرتی تو معاملہ عدالت کے پاس جاتا۔ اسی لئے ن لیگ کو اس نام پر اتفاق کرنا پڑا۔ کئی لوگوں نے نیب کے سربراہ کی تقرری کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ چال قرار دیا تھااور یہ بھی اندازہ لگایا تھا کہ اگر یہ اکٹھے ہوگئے تو پھر بآسانی آئینی ترمیم کرکے نواز شریف کو اہل کروالیں گے اور بدلے میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنالیں گے۔

زرداری صاحب کے ساتھ دیسی کھانوں کے پرتکلف ڈنر میں اس سازشی کہانی کامحل دھڑام سے گر گیا کیونکہ زرداری صاحب کا ن لیگ سے غصہ اور نواز شریف سے شدید ناراضی دیکھ کر یقین آ گیا کہ نیب سربراہ کا تقرر زرداری صاحب نے ایسے طریقے سے کروایا کہ ن لیگ اس پر مہر تصدیق ثبت کرنے پر مجبور ہو گئی کیونکہ عدالتی فیصلے کے ذریعے نیب چیئرمین کی تقرری ن لیگ کو کسی صورت بھی منظور نہ تھی۔ ہوسکتا ہے زرداری صاحب نگران حکومت کے قیام میں بھی ایسی ہی ترپ کی چال چل جائیں اور اپنی مرضی کی نگران حکومت لے آئیں۔

سابق صدر زرداری نواز شریف کے ساتھ تعاون کے اس قدر خلاف ہیں کہ وہ یہ تک نہیں مانتے کہ نواز شریف ایک جمہوری لیڈر ہیں۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ میں نے تو اپنے صدارتی اختیارات خود پارلیمینٹ کو دے دیئے تھے مگر نواز شریف کو اتنی توفیق تک نہیں تھی کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں چلے جاتے، باقاعدگی سے کابینہ کا اجلاس بلاتے یا اپوزیشن کی بات سنتے۔ عشایئے کی میز پر موجود ڈاکٹر عاصم حسین اور سینیٹر مانڈوی والا بھی صدر صاحب کی تائید کرتے رہے۔

ڈاکٹر عاصم کا خیال تھا کہ چوہدری نثار، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ ان کی گرفتاری کے وقت آن بورڈ تھے اور مقصد صدر زرداری کو پھنسانا تھا۔ صدر زرداری مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’میرے ’’معصوم خرگوش‘‘ میں نے تو تمہیں منع کیا تھاکہ ابھی پاکستان نہ جاؤ، پکڑے جاؤ گے، مگر تم باز نہ آئے اور گرفتار ہوئے۔‘‘ سابق صدر نے بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوئے تو بلاول بھٹو نے اپنے طور پر یہ سیاسی چال چلی کہ ڈاکٹر عاصم حسین کوپیپلزپارٹی کراچی کا صدر بنا دیا۔ میں نے بلاول کی سیاست پر ان کا تبصرہ پوچھا تو کہنے لگے ’’بہت سمجھدار اور تیزطرارسیاستدان بنتا جارہا ہے۔‘‘ پہلی دفعہ بلاول بھٹو کی سیاست پر ان کی طرف سے مکمل اطمینان نظر آیا۔ حیدر آباد جلسے میں تقریر اور کرائوڈ کے رسپانس سے بھی وہ بہت خوش نظر آئے۔

صدر زرداری پاکستان اور بالخصوص سندھ میں جلد انتخابات کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی سندھ حکومت کے بہت سے منصوبے زیرالتوا ہیں۔ یہ اگلے سال ہی مکمل ہوں گے۔ اسی لئے ان کے خیال میں مقررہ وقت پر انتخابات ہونے سے ہی پیپلزپارٹی کو سندھ میں زیادہ سیاسی فائدہ ملے گا۔

سابق صدر آصف علی زرداری سیاسی شطرنج کے کھلاڑی تو ہیں ہی مگر گھریلو بساط کے بھی ماہر کاریگر ہیں۔ اپنی چار بہنوں کے ساتھ پرورش پانے کی وجہ سے انہیں خواتین کی ڈیلنگ کا بہترین ہنر آتا ہے۔ اس رات بھی ان کی تین سیاسی بہنیں رخسانہ بنگش، مہرین انور راجہ اور فوزیہ حبیب ان کا خیال رکھنے کے لئے وہاں موجود تھیں۔ ہماری پرتعیش دعوت کے کھانے انہی خواتین کی زیرنگرانی تیار ہوئے تھے مگر گمٹی بازار کا دیسی مرغ قورمہ سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ اتفاق سے یہی باورچی شریف خاندان کے کھانے بھی تیار کرتا ہے۔ زرداری صاحب نے تیز مرچ مصالحے والا اتفاق خاندان کا پسندیدہ قورمہ چکھا ضرور مگر کھائی وہی کڑھی، بھنڈی، سفید چاول اور دال ماش والی ڈش جوکہ خاص طور پر بغیر گھی ان کے لئے تیار کی گئی تھی۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بڑے کایاں اور عقلمند ہیں۔ اسی لئے کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ فوج سے لڑائی ،مقابلہ یا محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ ایک موقع آیا کہ شاید مقابلے کی نوبت آ جاتی مگر میں نے وہ وقت دنیا میں پھرتے پھراتے گزار دیا اور پھر سب نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ حالات معمول پر آگئے۔ ایک وقت تھا کہ ہمیں شطرنج کی بساط سے ہی اٹھایا جارہا تھا اب ہم دوبارہ کھیل میں اِن ہیں۔ کھیل میں موجود ہوں تو جیت کاموقع مل سکتا ہے۔ ہم دوسرے یا تیسرے بڑے کھلاڑی ہیں اور اگلی بساط میں ہمارا حصہ ہوگا۔‘‘ زرداری صاحب کی بساط اپنی جگہ مگر عمرخیام کے بقول دیکھنا یہ ہوگا کہ تقدیر کا فیصلہ کس کے حق میں ہوگا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔