25 اکتوبر ، 2017
اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد اس وقت کی حکومت نے امریکا کے ساتھ بڑا سمجھوتہ کیا جس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان سے سینیٹ کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں اس لیے مناسب ہو گا کہ اس معاملے پر ایوان میں بحث ہو۔
خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران امریکا کا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پوری سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی حکام کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر مذاکرات کیے جس دوران کسی کے بھی لہجے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بندے بیچنے کے بدلے ذاتی فوائد حاصل کیے گئے جب کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے امریکا کے ساتھ بڑا سمجھوتہ کیا جس کا نتیجہ ہمیں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں وہ لسٹ فراہم کرتے تھے اور ہم بندے پکڑ کر انہیں دیتے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے جواب میں ہم نے سرنڈر کیا اور نہ کوئی سمجھوتا، ہم نے امریکا سے کوئی آرڈر لیا اور نہ ہی کوئی دباؤ قبول کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے علاقوں میں امن قائم کیا اور اپنی سرزمین سے ان لوگوں کا صفایا گیا ہے جو ڈرون حملوں کا باعث بنے، آج پہلے کے مقابلے میں بہت کم ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے جو پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے، افغانستان میں بھارت کا کردار کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھاکہ افغانستان کا 45 فیصد علاقہ کابل کے قبضے سے باہر ہے اور اس 45 فیصد علاقے کے دو سے تین صوبوں پر داعش قابض ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین سے پچھلے ایک سال کے دوران ہماری سلامتی کی جتنی خلاف ورزی ہوئی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کی ہمارے پڑوس میں کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں اس لیے امریکا فیس سیونگ چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان ان کی مدد کرے، ہم ان کی مدد ضرور کریں گے لیکن پراکسی نہیں بنیں گے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کو 75 دہشت گردوں کی فہرست فراہم کی جس میں حافظ سعید سمیت کسی بھی پاکستانی کا نام شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کی فراہم کردہ فہرست میں سے زیادہ تر مارے جا چکے ہیں جب کہ کچھ افغانستان میں طالبان کے شیڈو گورنر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کا 70 فیصد زور حقانی نیٹ ورک پر تھا اور امریکا طالبان کو سیاسی فورس سمجھتا ہے اور وہ تین چار ہزار حقانیوں کو افغانستان میں تمام خامیوں کا ذمے دار کہتے ہیں، حقانی کا ذکر بار بار چھیڑتے ہیں لیکن اس کے سوا کسی بات پر زور نہیں دیتے۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات خراب ہیں تو ہم نے کہا کہ افغانستان میں حالات گزشتہ 16 برسوں سے خراب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹلرسن سے کہا پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگا رہا ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ اپنے حصے میں بھی باڑ لگا دیں اور دو ارب ڈالرز خرچ کر کے افغان پناہ گزینوں کو واپس لے جائیں، پھراگر آپ الزام لگائیں کہ ہمارے ہاں پناہ گاہیں ہیں تو جواز بنتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان آمد سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان سے ایک بار پھر ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سرزمین سے دہشت گردوں کی سپورٹ ختم کرنے کے اقدامات کرے۔
امریکی وزیر خارجہ کے بیان پر چیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو اس حوالے سے وضاحت پیش کرنے کا کہا تھا۔