31 اکتوبر ، 2017
آج کل میرے کئی دوست بٹ کوائن اور کرپٹو کرنسی کی دنیا میں پوری طرح غرق ہیں ۔ سب نے مل کر واٹس ایپ پر ایک گروپ بنا رکھا ہے جہاں سب ایک دوسرے کو نئی نئی کرنسیوں کے بارے میں دلچسپ آرٹیکل اور ریسرچ پیپرز بھیجتے ہیں۔
شروع میں تو میں نے نظر انداز کیا لیکن پھر اخبارات میں بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی قیمت کے بارے میں پڑھا تو جھنجھلا کے مگر رازداری میں نکموں کے بھیجے ہوئے ریسرچ پیپرز بھی پڑھے۔
21جولائی کو میں نے بغیر کسی کو بتائے بیگم کے سونے کے بعد 100 پاؤنڈ کے بٹ کوائن ایک موبائل ایپ کے ذریعے خرید لئے ۔ 100پاؤنڈ میں بٹ کوائن کی چند چھینٹیں ملی ۔ میں 0.06566672 بٹ کوائن کا مالک بن چکا تھا ۔ کچھ عرصے بعد دیکھا تو یہ 100پاؤنڈ 140 اور پھر اکتوبر 2017 کے دوسرے ہفتے میں میرے 100پاؤنڈ 204 پاؤنڈ بن گئے ۔ پہلی بار اپنے دوستوں پر فخر ہوا اور یوں میں بھی کرپٹو کرنسی کی دنیا میں کود پڑا۔
عموماً ڈیجیٹل کرنسی کو ورچوئل (خیالی یا مجازی) کرنسی بھی کہتے ہیں۔ کرنسی کو ورچوئل کہنا اکثر ڈیجیٹل کرنسی ماہرین کی طبعیت پر گراں گزرتا ہے۔ وہ اس لئے کہ " ورچوئل" لفظ یعنی "اصل جیسے" کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن "اصل " کے لئے نہیں جب کہ ڈیجیٹل کرنسی ایک الیکٹرونک رجسٹر میں محفوظ کی جاسکتی ہے ۔
چینی زبان میں لفظ "ورچوئل " کا ترجمہ (Created from nothing)ہے یعنی ایک ایسی چیز جو کسی بھی شہ سے نا بنی ہو۔
دراصل یہ ورچوئل کرنسی ایک حقیقت ہے اور موجود ہے اس لئے ورچوئل کو ڈیجیٹل کرنسی کہا جائے تو بہتر ہے ۔ "ڈیجیٹل کرنسی " انکرپشن (خفیہ کاری) کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور انکرپشن ہی کے ذریعے اس کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔
ٹرانسیشکن ایک پبلک لیجر(Ledger) میں محفوظ ہوجاتی ہیں جسے ٹرانسیکشن بلاک چین بھی کہتے ہیں۔
نئی اور جدید کرنسی پیدا کرنے والے اس عمل کو "مائننگ" کہتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں انفرادی اور اداروں کی سطح پر ڈیجیٹل کرنسی کا تبادلہ عام ہوچکا ہے۔ کرپٹو کرنسی دراصل صرف بیس سال پرانی ہے۔
ریسرچ کے مطابق " بٹ گولڈ " پہلی ڈیجیٹل کرنسی تھی جو کہ 1997-1998 میں ڈی سینٹر لائزڈ ڈیجیٹل کرنسی کے طور پر سامنے آئی ۔ "ساتوشی ناکاموتو " نامی ایک صاحب / صاحبہ یا گروپ نے اسی ڈیجیٹل کرنسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تفصیلی پیپر شائع کیا اور کچھ ہی دن میں بٹ کوائن سامنے آیا ۔
2007 سے بٹ کوائن کو لوگوں نے سنجیدگی سے لینا شروع کردیا۔ آج سب سے زیادہ کامیاب ڈیجیٹل کرنسی یعنی 1 بٹ کوائن 4000 پائونڈ سے زیادہ کا ہے۔ دنیا میں ایک ہزار سے زیادہ کرپٹو کرنسیز ٹریڈنگ کے لئے موجود ہیں۔ اس مارکیٹ کی سرمایہ کاری 100 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔
مغربی دنیا میں رہنے والے دوست یہ بات جانتے ہیں کہ آن لائن شاپنگ کا رجحان پچھلے پانچ سال میں کس قدر بڑھ چکا ہے۔کرپٹو کرنسی اسی طرح استعمال ہوتی ہے جس طرح آپ پے پال (PayPal) یا کریڈٹ کارڈ سے آن لائن شاپنگ کرتے ہیں ۔
کچھ بڑی آن لائن کمپنیز نے اب کرپٹو کرنسی قبول کرنا شروع کردی ہے۔ امریکہ کی مشہور ٹریول ویب سائٹ "ایکسپیڈیا" اب بٹ کوائن قبول کرتی ہے ، یعنی آپ اپنی اگلی چھٹیاں بٹ کوائن کے ذریعے بک کرسکتے ہیں۔ ویب سائٹ آپ کی بٹ کوائن ادائیگی کو قبول کرلیتی ہے اور باآسانی اسے ڈالر میں تبدیل کردیتی ہے۔
یہاں یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ بٹ کوائن کا کوئی "مالک یا اونر " نہیں ہے ۔ یہ کرنسی "ریگولیٹڈ " بھی نہیں ہے ۔ یہ کرنسی ایک دوست سے دوسرے دوست تک کسی بینک یا انسٹی ٹیوشن کے عمل دخل کے بغیر منتقل کی جاسکتی ہے ، یعنی باقاعدگی سے کوئی ٹریس نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کرنسی ملکوں کے قوانین اور اکنامکس کے کئی اصولوں سے مبرا ہے۔
یہ کرنسی انٹرنیٹ کی طرح ڈی سینٹرلائزڈ ہے یعنی جیسے انٹرنیٹ کا کوئی دیس نہیں ہے اس کرنسی کا بھی کوئی وطن نہیں ہے۔ یہ کرنسی صرف اس لئے آج تک زندہ ہے کیونکہ کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔
یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہے، جی ہاں۔ یہ پیسے بھی چوری ہوسکتے ہیں ۔ اگر آپ کے بٹ کوائن والٹ کی اسناد چوری ہوگئی تو سمجھیں بٹ کوائن بھی گئے ۔ " بٹ کوائن والٹ " ایک بٹوا ہے جس میں آپ اپنے بٹ کوائن محفوظ رکھتے ہیں۔ ہر بٹوے کا ایک ایڈریس ہوتا ہے جو کہ حروف تہجی اور نمبروں (ایلفابیٹس اینڈ نمبرز) کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ اس بٹوے کو استعمال کرنے کے لئے آپ کے پاس ایک ’کی‘ یعنی چابی ہونا ضروری ہے۔
یہ پرائیویٹ ’چابی‘ ایک پاسورڈ ہے جو آپ خود منتخب نہیں کرسکتے۔ آپ کی چابی آپ کے بٹوے کے اڈریس سے ماخوذ ایک خاص ایلگوریتھم (algorithm) ہے جو آپ خود بھی نہیں جان سکتے۔
اگر آپ کبھی بٹوے کا ایڈریس بھول بھی گئے تو آپ کی چابی سے آپ کے سارے اگلے پچھلے والٹ یعنی بٹوے کھولے جاسکتے ہیں۔ یوں کہیے آپ بیوی کو بتائے بغیر اَن گنت بٹوے (والٹ) رکھ سکتے ہیں مگر آپ کی یہ چابی کسی کے ہاتھ لگ گئی تو آپ اپنی ڈیجیٹل کرنسی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ہر طرح کی سرمایہ کاری میں خطرہ ہوتا ہے مگر کرپٹو کرنسی کا موازنہ اگر روایتی سرمایہ کاری سے کیا جائے جیسے جائیداد اور اسٹاکس تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کرپٹو کرنسی کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گا کیونکہ بہت نئی ہے اور فطراً زیادہ رسکی ہے۔
ہندوستان اور چائنا کی حکومتوں نے بھی لوگوں کو حال ہی میں برطانیہ کے ایف سی اے سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
یعنی مارکیٹ میں جعلی ڈیجیٹل کرنسی بھی مل رہی ہے اور لوگ باآسانی بیوقوف بن رہے ہیں۔
اس کے لیے آپ کو ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ملک کے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی ماہر سے ملنے کی ضرورت ہے جو آپ کو اس کرنسی میں سرمایہ کاری کے منفی اور مثبت عناصر کے بارے میں صحیح سے سمجھا سکے۔
فی الحال میں نے کل 300 پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اگر اگلے سال تک یہ پیسے دُگنے ہوگئے تو میں ایک دوست سے لگائی گئی شرط ہار جاؤں گا اور آدھے پیسے مجھے اپنے ایک دوست کو دینا ہوں گے جو شرط جیت جائے گا۔
جعلی کرپٹو کرنسی اور لالچی دوستوں سے ہوشیار رہیے یہی آپ کے لئے بہتر ہے۔
لکھاری حیدر جناح برطانیہ میں ایک بینکر ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔