01 نومبر ، 2017
آخر کار اسموگ ایک مرتبہ پھر لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں پر پوری شدت سے حملہ آور ہے اور ہم حسب روایت صرف باتیں کر رہے ہیں۔
فضائی آلودگی آنے والی صدیوں کا سب سے بڑا مسئلہ بننے والی ہے، دنیا بھر میں ماہرین اس کا تدارک کرنے کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے سارا ملک کھود رکھا ہے، جدھر جاؤ بس مٹی ہے، دھول ہے اور گڑھے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ملک کے سیاست دان پاناما پاناما کھیل رہے ہیں اور سرکاری محکمے سڑکیں اکھیڑنے پھر پائپ بچھانے اور ہر طرف دھول اڑانے کی ٹھیکے بانٹتے پھر رہے ہیں۔
دنیا کوئلے کے کارخانے ختم کر رہی ہے اور ہم اپنے ملک میں لگانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، کئی برس پہلے ماہرین نے اس حوالے سے خبردار کر دیا تھا لیکن ہمیں صحت کے حوالے سے جاننے کی فرصت ہی کہاں ہے۔
گزشتہ برس نومبر کے آغاز میں اسموگ نے پنجاب پر حملہ کر دیا تو کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے، کوئی اسے بھارت کی سازش قرار دے رہا تھا اور کوئی آنسو گیس کے اثرات لیکن ہم نے کوئی منصوبہ سازی نہیں کی اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
پورا لاہور عرصہ دراز سے مٹی اور دھول کا ایک سمندر بنا ہی ہوا تھا، فضائی آلودگی کا گویا ایک طوفان تھا جس نے ہر شہری کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، ہر سڑک کھدی ہوئی ہے جو نہیں کھدی اسے بھی کھودنے کا ٹھیکہ مل چکا ہے۔
ان سیانوں کو کون سمجھائے کہ آپ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہو کوئی زندہ بچے گا تو کسی اورنج ٹرین کا لطف اٹھائے گا۔
گزشتہ برس روزنامہ ’جنگ‘ کے سنڈے میگزین میں اسموگ کے حوالے سے میرا مضمون شائع ہوا جو پاکستان بھر میں اس حوالے سے پہلا تحقیقی مضمون تھا، زندہ دلان لاہور ایک مرتبہ پھر فضائی آلودگی کی اس خطرناک ترین قسم اسموگ کا شکار بن چکے ہیں، گزشتہ دو دنوں سے لاہور اور وسطی پنجاب کے متعدد شہر اسموگ یا آلودہ دھند کی لپیٹ میں ہیں۔
ایک آدھ دن تک تو اس کو دھند ہی سمجھا جاتا رہا اور سردی کی آمد کا اعلان سمجھ کر گرم کپڑے نکالنے شروع کر دئیے گئے لیکن جب سردی کا احساس ہونے کے بجائے آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہوا تو ایسا لگا کہ لاہور کا ہر شہری ابھی ابھی رو دے گا جبکہ بعض سرخ آنکھوں کے ساتھ ساتھ کھانس بھی رہے تھے،تب معلوم ہو کہ سردی کی آمد نہیں بلکہ آلودگی کا حملہ ہے۔
اسموگ فوگ یعنی دھند اور اسموک مطلب دھویں سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے، اس کی ظاہری شکل لاہور اور گرد و نواح کے شہری اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، اردو میں ہم اسے گرد آلود دھند یا آلودہ دھند بھی کہہ سکتے ہیں۔
کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلاً بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے۔
اسموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ا سموگ خطرناک ہے یا نہیں تو جناب اسموگ بہت خطرناک ہے، اسموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے۔
چین میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افرادا سموگ کی وجہ سے جان ہار بیٹھتے ہیں، وہاں 17 فیصد اموات اسموگ کی وجہ سےہوتی ہیں۔
اسموگ میں زیادہ وقت گزارنے سے مختلف طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ سانس لینے میں دشواری، کھانسی یا گلے اور سینے میں جلن، صرف چند گھنٹوں میں ہی اسموگ آپ کے پھیپھڑوں کی داخل ہو کر جلن پیدا کر سکتی ہے تاہم اگر جلن نہ بھی ہو تو یہ آپ کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اسموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے، اگر آپ دمے کے مریض ہیں تو اسموگ میں جانا آپ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، بعض اوقات گہری اسموگ میں زہریلے مادے آنکھوں میں جلن اور چبھن پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں اور آنسو بہہ سکتے ہیں، کوشش کریں کہ گھر سے باہر کھلی فضاء میں نہ نکلیں، اگر گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو تو علی الصبح نکلیں،کھلی فضا میں ماسک کا استعمال کریں، کھلی فضا سے واپسی پر آنکھوں اور ناک کو پانی سے دھویں، نومولود اور کم عمربچوں کو کھلی فضا میں لے جانے سے روکیں، دمہ، دل اور پھیپھڑوں کے مریضوں کا خاص خیال رکھیں بھاری کام کرنے سے پرہیز کریں۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی روز تک بارش ہونے کا کوئی امکان نہیں، اسموگ سب سے زیادہ آنکھوں پر اثر انداز ہو رہی ہے جس کی وجہ سے آنکھوں میں جلن اور خارش کاا حساس ہوتا ہے، خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور کھلے مقامات پر کام کرنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اسموگ میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین ،کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز اور مادوں کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔
لاہور اور کراچی میں اب یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے، اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس کو دھند سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں اور یہی ہماری قوم کا بحیثیت مجموعی مزاج بھی ہے، خطرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے لیکن ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوتی ہیں لیکن اب ہمیں بہت سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے،خطرہ اب ہمارے سروں پر آ پہنچا ہے۔
گزشتہ برس بھی سوشل میڈیا نے حسب روایت غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا اور ساری ذمہ داری بھارت پر ڈال دی کہ بھارت نے کوئی سائنسی تجربہ کیا ہے اور اسموگ بم لاہور پر گرایا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ دہلی بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے، کیا اس نے لاہور کے ساتھ ساتھ اپنے دارالحکومت پر بھی بم گرایا ہے؟
حکومت کو اب آلودگی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، اپنے رویے بدلنے ہوں گے تب جا کر ہم اس خوفناک حد تک خطرناک صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔
لاہور میں سیف سٹی پروگرام کو روکنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے، یہ سیکیورٹی کی وجہ سے لاہور میں 8ہزار کیمرے لگانے کا منصوبہ ہے جس کے لیے سارا لاہور ادھیڑ دیا گیا ہے،ماہرین کے مطابق اسموگ کی ایک اہم وجہ یہ منصوبہ بھی ہے، کاش ہمارے منصوبہ ساز اپنے منصوبوں کے مضمرات پر بھی کبھی غور فرما لیا کریں، اگر سارے شہر میں گرد و غبار اڑانے کی بجائے کھدائی کرنے کے ساتھ ساتھ گڑھے بند کر کے مرمت کر دیے جاتے تو صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔