پنجاب کا چُورن بیچنے کا طریقہ

پیارے بچو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پنجاب والے ہمیشہ دوسرے صوبوں کا حق غصب کرتے ہیں، چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں، وسائل پر قابض ہیں، نوکریاں میں بھی پنجابیوں کا حصہ زیادہ ہے، کلیدی عہدوں پر بھی پنجابی ہی تعینات ہیں، قومی اسمبلی میں بھی انہی کی اجارہ داری ہے، مقتدر اداروں میں بھی انہی کا سکہ چلتا ہے اور نہ جانے ان کے پاس کون سی چمک ہے جو آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔

دوسری طرف چھوٹے صوبے ہیں جو مظلومیت کی تصویر ہیں، ملک کی کمائی کا ذریعہ ہیں مگر اِن پر خرچ کچھ نہیں ہوتا، معدنی وسائل سے مالا مال ہیں مگر غربت میں سب سے نیچے ہیں، اہم امور مملکت میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، قومی اسمبلی میں اِن کی اوقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تینوں صوبے مل کر بھی پنجاب کو نہیں پچھاڑ سکتے اور ریاست کے دیگر معاملات میں بھی اِن کے ساتھ ایسے ہی زیادتی ہوتی ہے۔ آئیں اب اِن باتوں کو چند مثالو ں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پیارے بچو! سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ پنجاب کو گالی دینا ایک فیشن ہے سو اگر آپ کے نلکے میں پانی نہیں آ رہا، آپ کے شہر میں لوڈ شیڈنگ ہے، گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر ہیں، آپ کو نوکری نہیں ملتی، کاروبار مندا ہے، بیوی میکے چلی گئی ہے یا ویسے ہی آپ کا موڈ خراب ہے اور آپ کسی پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے ہیں تو بلا کھٹکے پنجاب کو دو چار صلواتیں سنا دیں، خدا نے چاہا تو آپ کی شعلہ بیانی کو میڈیا کوریج دیگا، حب الوطنی پر شک بھی نہیں اٹھے گا، اپنے صوبے میں داد بھی ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو چھوٹا موٹا لیڈر نامزد کر دیا جائے۔

یاد رکھیں کہ گالی دیتے ہوئے یا الزام دھرتے وقت یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ حقائق کیا ہیں۔ مثلاً، کیا کسی کو یاد ہے کہ چار سال پہلے لاہور شہر میں ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کیلئے لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی حالانکہ اس شہر سے بجلی کے بل کی وصولی کی شرح 97%تھی جبکہ اسکے مقابلے میں فاٹا میں بل کی وصولی جتنی تھی وہ یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے کہ کراچی سے ملک کا ستّر فیصد ریونیو آتا ہے مگر چونکہ کسی نے آج تک اِس ضمن میں کوئی سرکاری کاغذ بطور ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لئے میں آج یہ دعوی کر رہا ہوں کہ ملک کا نوّے فیصد ریونیو تحصیل پتوکی سے آتا ہے، ایسے ہے تو ایسے ہی سہی

ادھر کراچی میں بھی لوڈشیڈنگ کا یہی حال تھا، لاہور کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم لوڈشیڈنگ ہوا کرتی تھی اور جتنا وقت بجلی آتی تھی وہ ہمارے کراچی کے بھائیوں کیلئے مفت تھی، تھینکس ٹو کنڈا سسٹم۔ اور بھائی سے یاد آیا ایک بھائی صاحب ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے پورے ملک کے میڈیا کو ہائی جیک کیا ہوا تھا، اگر وہ پنجابی ہوتے تو بھلا بتایئے پنجاب کے حصے کی گالیوں میں کتنے گنا اضافہ ہوتا!

پیارے بچو، یہ حقائق لکھنے کے ہیں نہ بتانے کے، یہ باتیں صرف اپنے تک رکھنی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ایک سازش کے تحت حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم کردیا گیا ہے تاکہ شہر کو اُس کے حق سے محروم کیا جاسکے۔

غضب خدا کا جس شہر کی آبادی بچہ بچہ جانتا ہے کہ تین کروڑ سے زیادہ ہوگی، اُس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ بھی نہ نکلی اور لاہور کی آبادی سوا کروڑ تک پہنچ گئی۔خبردار بچو، تمہیں ایسے گمراہ کُن پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں جس میں اعداد و شمار کی مدد سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ 1981میں کراچی کی آبادی 53لاکھ تھی، ساڑھے تین فیصد کی شرح سے بڑھنے کے بعد یہ آبادی 1998میں 93لاکھ ہو گئی، حالیہ مردم شماری میں آبادی بڑھنے کی شرح اڑھائی فیصد بتائی گئی ہے۔

اگر یہ شرح درست نہیں اور آبادی اسی ساڑھے تین فیصد کی شرح سے ہی بڑھتی تو اُس صورت میں بھی کراچی کی آبادی پونے دو کروڑ سے اوپر نہ جاتی جبکہ ہمارا دعویٰ کم ازکم تین کروڑ کا ہے اور تین کروڑ آبادی حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ کراچی کی آبادی سوا چھ فیصد کی شرح سے بڑھتی جو نا ممکن ہے اور اگر ایسا ہوا ہے تو اِس کا مطلب کہ ہر چھ میں سے دو یا تین افراد کو گنا ہی نہیں گیا جو مضحکہ خیز بات ہے۔

ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی کے بعض دیہی علاقوں کی آبادی کراچی میں شامل ہی نہیں کی گئی لیکن اگر اِس آبادی کو بھی ملا لیا جائے تو کل گیارہ لاکھ کا اضافہ بنتا ہے اور رونے کا مقام یہ ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کی حد بندی کرنا خود صوبائی حکومت کا کام تھا ’’پنجابی وفاق‘‘ کا اِس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

چار سال پہلے لاہور شہر میں ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کیلئے لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی حالانکہ اس شہر سے بجلی کے بل کی وصولی کی شرح 97%تھی جبکہ اسکے مقابلے میں فاٹا میں بل کی وصولی جتنی تھی وہ یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے

مگر پیارے بچو، جیسا کہ میں نے کہا کہ ان نام نہاد حقائق پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں، زور صرف اِس بات پر دو کہ کراچی کی آبادی کو ایک سازش کے تحت کم کیا گیا ہے اور ہاں یہ بات بھی نظر انداز کر دو کہ حالیہ مردم شماری کے نتیجے میں پنجاب کی قومی اسمبلی کی نو نشستیں کم ہوئی ہیں اور باقی چھوٹے صوبوں کی بڑھی ہیں، یہ بات بھی پی جاؤ کہ اس مردم شماری میں سندھ کا حصہ کم نہیں ہوا اور کے پی اور بلوچستان کا بڑھا ہے جبکہ پنجاب واحد صوبہ ہے جس کا حصہ 56سے کم ہو کر 53فیصد رہ گیا ہے،تشہیر صرف اس بات کی کرو کہ پنجاب آبادی کی بنیاد پر ہمیشہ حکومت بنا لیتا ہے۔

اس بات کو چھوڑو کہ دنیا بھر میں وفاق کی اکائیوں کی نمائندگی کا یہی طریقہ ہے کہ ایک ایوان آبادی کی بنیاد پر اور دوسرا ایوان رقبے کی بنیاد پر عوام کی نمائندگی کرتا ہے، تم صرف یہ سبق یاد کرو کہ مقتدر حلقے ہمیشہ پنجاب سے ہوتے ہیں اس لئے بالادستی پنجاب کی ہے، یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ ماضی کے چار آمروں میں سے تین غیر پنجابی تھے اور اُن میں سے ایک نے تو کراچی کیساتھ اپنی محبت کا ثبوت 12مئی کو دیا تھا جو آج بھی سب کو یاد ہے۔

پیارے بچو ! یہ سبق یاد رکھو کہ پنجاب نے چھوٹے صوبوں کا استحصال کیا ہے، یہ بھول جاؤ کہ پنجاب کے حکمرانوں کی بھی چھٹی کروائی گئی ہے اور چھٹی کروانے والے غیر پنجابی تھے، یہ بات رٹ لو کہ کلیدی اسامیوں پر پنجاب قابض ہے اور یہ بھول جاؤ کہ سی ایس ایس اور تمام وفاقی ملازمتوں میں کوٹے کی وجہ سے پنجابی طلبہ پر چھوٹے صوبوں کے طلبہ کو فوقیت دی جاتی ہے، یہ بات بھی کہتے رہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پنجاب نے ہمیشہ استعمار کا ساتھ دیا ہے تاہم یہ بات نظرانداز کر جاؤ کہ ہر مزاحمتی جماعت اور تحریک لاہور سے ہی اٹھی ہے۔ بلوچوں پر ظلم بھی پنجاب کے کھاتے میں ڈالو قطع نظر اس حقیقت کے کہ اس ظلم کیخلاف سب سے موثر آواز اٹھانے والا ایک پنجابی اور لاہوری صحافی ہے۔

سبق:پیارے بچو! اس باب میں ہم نے یہ سبق سیکھا کہ اگر ہم ایسے ہی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے آنکھوں پر تعصب کی عینک چڑھا کر اپنا اپنا چُورن بیچیں گے تو پھر بات یہاں تک آن پہنچے گی کہ پشاور میں دھماکہ پشتون ہلاک، لاہور میں دھماکہ پنجابی ہلاک، حالانکہ خون کسی پشتون، سندھی، بلوچی یا پنجابی کا نہیں بلکہ پاکستانی کا بہتا ہے اور غریب چاہے راجن پور کا ہو یا پنجگور کا، سب کا دکھ سانجھا ہے۔

لیکن ان تمام باتوں کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پنجاب نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی، استحصال ہوا ہے،جس کے خلاف مزاحمت بھی کی جانی چاہئے مگر غلط حقائق سے اپنا مقدمہ کمزور کرنے کی بجائے پنجاب کی استحصالی اشرافیہ کی ایسی نا انصافیوں کا پردہ چاک کرنا چاہئے جس کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

کالم کی دُم: یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے کہ کراچی سے ملک کا ستّر فیصد ریونیو آتا ہے مگر چونکہ کسی نے آج تک اِس ضمن میں کوئی سرکاری کاغذ بطور ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لئے میں آج یہ دعوی کر رہا ہوں کہ ملک کا نوّے فیصد ریونیو تحصیل پتوکی سے آتا ہے، ایسے ہے تو ایسے ہی سہی۔

نوٹ: مردم شماری سے متعلق اعداد و شمار جواں سال لکھاری حسان خاور کے حالیہ شائع شدہ مضمون سے لئے گئے ہیں۔

یہ کالم 8 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔