بلاگ
Time 09 نومبر ، 2017

راہزن یا راہبر

جیو نیوز السٹریشن

سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا مکمل فیصلہ کیا سنایا ، نواز شریف اور ان کے حواریوں نے معزز جج صاحبان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی۔ عدلیہ کے خلاف جو منہ میں آیا کہتے چلے گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں بخشا اور اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں نشانہ بنا گئے۔

نظر ثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے اگلے ہی روز احتساب عدالت کے باہر نواز شریف نے نہ صرف فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ججوں کو ہی برا بھلاکہنا شروع کردیا ۔ غصے میں یہاں تک کہا کہ جج بغض سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کا غصہ ان کے فیصلے نظر آ رہا ہے۔مریم نواز نے اپنے والد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ منصف مخالف وکیل بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے مرکزی قیادت کے اجلاس کے بعد اعلامیے میں بھی فیصلے کو مسترد کیا اور تفصیلی فیصلے میں ایک معزز جج کی جانب سے لکھے گئے شعر کے جواب میں اسی شعرمیں ترمیم کر دی ۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری " منصفی "کا سوال ہے

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے قوم کو بے وقوف بنایا اور جھوٹ بولنے سے بہتر تھا کہ باعزت عہدے سے مستعفی ہو جاتے۔

فیصلے میں ایک شعر بھی لکھا گیا

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہ زنوں سے گلہ نہیں تیری"رہبری" کا سوال ہے

میری نظر میں مسلم لیگ ن نے ’’مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری " منصفی" کا سوال ہے‘‘ کو اپنے اعلامیے کا حصہ بنا کر سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔

نواز شریف کی اہلیت کا معاملہ بھی ان کی ایسی دولت سے اٹھا جس کا نواز شریف واضح جواب دینے کے بجائے ٹالنے کی کوشش کی اور وہ کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کر سکے یا یہ کہیں کہ ان کے پاس اپنی جائیداد کے حوالے سے کیے گئے سوالوں کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں تھا جو عدالت کو مطمئن کر سکتا۔

میاں نواز شریف کے پاس اپنی جائیداد کے جائز ذرائع سے حاصل ہونے کا جواب نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے بچوں کے نام اربوں روپے کی جائیداد خریدنے اور لاکھوں ڈالر زاور پاؤنڈز کا کاروبار کرنے کے لیے یہ خطیر سرمایہ ناجائز ذرائع سے حاصل ہوا۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں راہزنی اور رہبری کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔

میرا خیال بھی یہی ہے کہ "بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی" ۔ اور اسی رسوائی پر نواز شریف اور ان کے بچے اور حواری سیخ پا ہورہے ہیں۔

ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ یہ اشرافیہ اتنی دولت کس طرح اور کس قدر آسانی سے ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کر دیتی ہے اور کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی۔ معصوم عوام بھی دھوکے پر دھوکا کھا کر بھی ایسے لوگوں کے آگے پیچھے گھومتی ، ان کی چکنی چپڑی باتیں سن کر ان کے حق میں نعرے لگاتی اور انہیں عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے۔ تو ہم جیسے کیوں نا دولت حاصل کرنے کے یہ گر سیکھ لیں ۔ اور جب اشعار میں راہزنی ، رہبری اور منصفی کی بات کی جارہی ہو تو کیوں نہ ہم بھی اس محفل میں شامل ہو کر اپنے دل کی بات کہنے کی کوشش کریں۔

یہ سوچتے ہوئے مجھے خیال آتا ہے کہ مذکورہ شعر کو کچھ یوں لکھوں:

وہ لوٹ رہے ملک کو اپنے دونوں ہاتھوں سے
ہم کو ایسے راہزنوں سےرہ نمائی چاہیے

جب بیشتر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے نام ملکی دولت لوٹنے والوں کی فہرست میں سامنے آرہےہوں اور وہ معاشرے میں ایک "باعزت " اور عیاشی کی زندگی گزار رہے ہوں تو پھر جو لوگ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں، اور رہبر بھی ہوں تو کیوں نا ایسے راہزنوں سے رہنمائی حاصل کر کے دولت کمانے کے گر سیکھ کر زندگی سنوار لی جائے ۔

ان کے پاس وہ آرٹ ہے جو کسی کے پاس نہیں یعنی ملک کی دولت لوٹ کر اپنے خزانے میں منتقل کر لی جائے اور پکڑائی بھی نہ دیں ۔ عوام کے نزدیک صادق اور امین کی حیثیت سے مشہور رہیں اور ہمارا دامن ہر طرح سے صاف ستھرا بھی کہلائے۔ دولت کے زور پر ایک ہجوم جمع کر لیا اورتصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر کے کہا جائے کہ عوام ہمیں ہیرو سمجھتی ہے۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کبھی ٹھیکوں سے پیسے نہیں بنائے اور نا ہی دولت کمانے کا کوئی ناجائز ذریعہ استعمال نہیں کیا۔لیکن بڑی حیرانی کی بات ہے کہ ان کے بچے کم عمری میں اربوں روپے کی پراپرٹی خریدنے اور لاکھوں ڈالرز اور پاؤنڈز اپنے بینک اکاؤئنٹس میں رکھنے کے قابل ہوگئے۔ ان کے پاس یہ دولت کے انبار کہاں سے آئے،بچوں کو تحفےکے طور پر کروڑوں روپے دئیے گئے پھر بچوں نے باپ کو اس میں کئی گنا اضافہ کر کے واپس کردئیے۔

ایک انٹرویو میں مریم نواز نے کہا کہ ان کے دادا ایک ارب پتی بزنس میں تھے۔ نواز شریف قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کچھ نہیں تھا اور انہوں نے دن رات محنت کر کے ایک لوہے کا کارخانہ دبئی میں لگایا جسے فروخت کر کے پیسہ برطانیہ منتقل کیا گیا ۔ ان کے قطری بزنس پارٹنر ایک خط میں ان کی دولت برطانیہ کے ایک فلیٹ کی صورت میں دیے جانے کا اقرار کرتے ہیں۔ ادھر شہباز شریف صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک محنت کش اور غریب انسان تھے ۔ اللہ جانے کہ اس سب میں کیا سچ ہے اور کیا نہیں مگر ہمیں تو وہ طریقہ سیکھنا ہے جس سے ہمارے بچے دولت کے انبار کے مالک بن جائیں۔

اب اسحاق ڈار کی سنیے۔۔

انہوں نے بچوں کو کچھ پیسے دیئے جو پانچ سال میں واپس بھی کر دیے گئے اور اس سے دبئی میں کروڑوں کی جائیدادخرید لی گئی اور لاکھوں ڈالر کے کاروبار بھی ہونے لگے۔ ان کی دولت دن دگنی اور رات چوگنی ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ الہ دین کا چراغ رکھنے والا بھِی پریشان ہو جائے گا ۔ منشیات اور اسلحے کا کاروبار کرنے والے بھی شاید سوچ رہے ہوں گے کہ بہتر ہے ان کی ہی رہنمائی حاصل کی جائے۔

مہذب معاشرے میں اگر کسی سیاستدان کے خلاف جرم کو ثابت ہونا تو دور کی بات کوئی الزام بھی لگ جائے تو وہ فوری اپنے سیاسی عہدے سے مستعفی ہو جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نااہل کرے لیکن قومی اسمبلی میں قانون سازی کر کے ایسے شخص کو دوبارہ پارٹی کی صدارت کے لیے اہل کر لیا جائے۔جیسے کہہ رہے ہوں کہ "لے بگاڑ لے جو بگاڑ سکتا ہے۔"

جہانگیر ترین کا معاملہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ، ان کو ہزاروں ایکٹر اراضی بھی لیز پر مل گئی اور اربوں بھی کما لئے۔ ان کے بچوں نےبھی بیرون ملک محل اور جائیداد یں بھی بنالیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

عمران خان کو ان کی سابق ارب پتی اہلیہ جمائمہ خان نے لاکھوں ڈالر ادھار دئیے جو عمران خان نے اپنی کرکٹ کی کمائی سے ادا کر دیے ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر یہ دولت ان ہی کی تھی تو انہوں نے اسے خود پاکستان منتقل کیوں نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو قانون کے اعتبار سے یہ تمام دولت ٹیکس فری ہوتی یعنی

نا ہینگ لگے نا پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا ۔

ہماری اس بحث کا لب لباب یہ کہ دولت کے انبار تو اسی طرح لگائے جا سکتے ہیں۔ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رہزن اور رہ نما ہماری بھی رہنمائی کریں تاکہ ہم بھی ہر جائز اور ناجائز طریقوں سے پیسے بنائیں ، سچے اور دیانت دار کہلائیں اور ہیرو بھی بن جائیں ۔ ملک کو نقصان پہنچانے کا گھناؤنا جرم کریں اور نہایت فخر سے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے عدالتوں میں جائیں ۔ اگر یہ پیسے کمانے میں ہماری رہنمائی نہیں کرسکتے تو اپنے اربوں روپوں میں سے فطرانہ ہی ہمیں دے دیں تو ہماری نسلیں گھر بیٹھ کر کھائیں۔

یہ دیکھ کر تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب سیاستدان ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ تم ہمیں ایمانداری کا بھاشن دے رہے ہو تم نے بھی تو ملک کے اربوں روپے لوٹے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ارباب اختیار جب یہ تو جانتے ہیں کس کس نے ملک کی کتنی دولت لوٹی ہے تو ایسے مجرمان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے اور جب ان پر کرپشن کا الزام لگایا ہے تو اسے صرف دھمکی دینے کے حربے کے لیے ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی نا اہل ہو جائے تو کہتا ہے کہ آج تم ہمیں نا اہل کروا رہے ہو ،کل خود بھی نا اہل ہو گے۔ یعنی اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

ایک عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ اگر نیب کارروائی شروع کرے تو سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھے بیشتر عوامی نمائندے ایسے ہوں گے جن کے اثاثے آمدنی سے زیادہ نکلیں گے۔ اس بات کا علم تو ایف بی آر کی جاری کردہ ٹیکس دہندگان کی اس فہرست سے ہوتا ہے جس میں ان کی آمدنی اور جمع کرائے گئے ٹیکس سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔ اور یہ لسٹ ہی کارروائی کے آغاز کے لیے کافی ہے ۔ لیکن یہ محکمہ جس کا کام ٹیکس نا دہندگان کو پکڑنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا ،ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا اور ناجائز دولت جمع کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کرنا ہے۔ وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے یا شاید علم کے باوجوہ وہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ان کا زور چلتا ہے تو صرف تنخواہ داروں پر جن کا ٹیکس تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ہی منہا کر لیا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص چھوٹی سی گاڑی خرید لے تو محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے اس کو نوٹس جاری کر دیا جاتا ہے کہ اپنی آمدنی کا ذریعہ بتائیں لیکن کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومنے والوں ، اربوں روپے کی جائیدادیں رکھنے والوں اور بیرون ملک اثاثے رکھنے والوں سے تفتیش کرتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے۔

نا جانے کب چیرمین ایف بی آر آمدن سے زائد زندگی گزارنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے؟ اور نیب کب بدعنوانوں کے گرد اپنا شکنجہ کسے گا اور الماریوں میں بند فائیلوں کو کھول کر قانون کے مطابق مجرمان کو سزا دے گا ؟

کیا ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی نا کرنے والے افسران کے خلاف قانون کبھی حرکت میں آئےگا؟ کیا ہماری نوجوان نسل قانون کا بلاتفریق اطلاق دیکھ سکے گی؟ یا وہ بھی قانون کو امیر وں کے گھر کی لونڈی اور غریبوں کے سر پر تلوار ہی دیکھیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔