Time 09 نومبر ، 2017
بلاگ

تُو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر

دو عدالتی فیصلوں نے دو سیاستدانوں کے موقف کی نفی کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر اپنے تفصیلی فیصلے میں نواز شریف کو بتایا ہےکہ انہیں صرف اقامے پر نااہل قرار نہیں دیا گیا بلکہ اقامے سے حاصل کردہ اثاثوں کو چھپانے اور جھوٹا بیان حلفی دینے پر نااہل قرار دیا گیا۔

عمران خان اس فیصلےپر بڑے خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بتا دیا کہ انہیں کیوں نکالا گیا لیکن عمران خان غور کریں تو پتا چلے گا کہ اس فیصلےمیں ان کے لئے بھی ایک پیغام ہے۔

عدالت نے نواز شریف کے بارے میں کہا کہ انہوں نے عدالت میں سچ نہیں بولا۔عدالت میں سچ بولنا بہت ضروری ہے لیکن عدالت کے باہر سچ بولنا بھی بہت ضروری ہے۔ عمران خان کچھ دنوں سے ایک نامعلوم این آر او کا شور مچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کوئی این آر او قبول نہیں کیاجائے گا لیکن یہ نہیں بتارہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ این آر او کون کرے گا؟

مسلم لیگ (ن) کااصل اثاثہ نواز شریف ہیں اور نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیاہے۔ نواز شریف کے ساتھ این آر او یا تو سپریم کورٹ کر سکتی ہے، یا فوج کرسکتی ہے یا اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی کرسکتی ہے۔ این آر او کی افواہوں میں اس وقت تیزی آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف دائر تین نیب ریفرنسوں کو یکجا کرنے کے بارے میں درخواست نیب عدالت کو بھجوائی اور کہا کہ اس درخواست کی دوبارہ سماعت کی جائے۔

8نومبر کی صبح نیب عدالت کے جج محمد بشیر نے اس درخواست کو مسترد کردیا اور نواز شریف کی موجودگی میں ان پر فرد ِ جرم عائد کردی۔ نیب عدالت کا یہ فیصلہ عمران خان کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کوئی این آر او ہو رہاہے۔

پیپلزپارٹی کو نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایسا موقف اختیار کرنا چاہئے کہ آئندہ انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ ختم ہو جائے

نیب عدالت میں پیشی کے بعد نواز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہیں اپنے حق میں فیصلے کی کوئی توقع نہ تھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کا غصہ اور بغض ان کے الفاظ میں سامنے آگیا اور یہ فیصلہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس فیصلے میں جسٹس اعجاز افضل نے ایک شعر بھی شامل کیا ہے جس کے مخاطب نوازشریف ہیں؎

تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تیری راہبری کا سوال ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس اعجاز افضل کے نواز شریف کے ساتھ غصے اور بغض کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ سے نواز شریف کے حق میں فیصلے نہیں آرہے؟ کیا ان کے حق میں آنے والے فیصلے کسی جج کی نواز شریف سے محبت و عقیدت اور احسان مندی کا مظہر ہیں؟

عدالتوں کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اختلاف دلیل کی بنیاد پر کیاجانا چاہئے۔ نواز شریف جن الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں ان میں ان کا اپنا غصہ زیادہ نمایاں ہے۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب ریاستی ادارے اپنے فرائض درست طور پر ادا نہ کررہے ہوں تو سپریم کورٹ ہدایات جاری کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ نیشنل بنک، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بنک اور انٹیلی جنس بیورو میں نواز شریف کے دوست اور حلیف بیٹھے ہوں تو پھر آئین کے تحت سپریم کورٹ نیب کو ضمنی ریفرنسز دائرکرنے کی ہدایات دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

نواز شریف اور ان کے حامی تنقید سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور تنقید کرنے والوں کو ذاتی دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ ان پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں یالگوانا شروع کردیتے ہیں۔ آج کل کچھ ایسے سابق صحافی اور دانشور بھی ن لیگ کے راستے پر چل رہے ہیں جنہیں ن لیگ کی حکومت نے سرکاری عہدے دیئے۔

یہ حضرات اکثر میڈیا پر اپنا غصہ نکالتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان کا اپنا کردار اور سرکاری نوکری دراصل نواز شریف کے خلاف ایک چلتی پھرتی چارج شیٹ ہے۔ نواز شریف کے ان غصیلے جانثاروں سے گزارش ہے کہ اس مشکل وقت میں اپنی بھونڈی خوشامد سے اپنے محبوب قائد کے لئے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کریں۔

ٹھیک ہے آپ کو میڈیا میں کچھ لوگوں سے بہت شکایتیں ہیں اور آپ انہیں جعلی صحافی سمجھتے ہیں لیکن آپ کسی کا نام لے کر اس کی مذمت کرنے کی بجائے پوری صحافی برادری پرحملہ آور ہو جاتے ہیں اور نواز شریف کے دشمنوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بیچارے صحافی آج کل چاروں طرف سے حملوں کی زد میں ہیں۔ بلوچستان کے صحافیوں کا تو بہت برا حال ہے۔ نواز شریف کی جماعت کی حکومت صحافیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتی تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکے۔

عدالت نے نواز شریف کے بارے میں کہا کہ انہوں نے عدالت میں سچ نہیں بولا۔عدالت میں سچ بولنا بہت ضروری ہے لیکن عدالت کے باہر سچ بولنا بھی بہت ضروری ہے

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو کسی نے یہ سبق پڑھا دیا ہے کہ وہ مزاحمت کی نئی علامت بن چکی ہے اور یہ علامتی کردار مستقبل کی سیاست کے لئے بڑا سودمند ثابت ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) یہ بھول رہی ہے کہ اس کی سیاسی طاقت کا مرکز پنجاب ہے اور پنجاب کے سیاستدانوں کی اکثریت مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں چلتی۔

نواز شریف کو بھی اپنے بہت سے ساتھیوں پراعتماد نہیں، اس لئے وہ لمبی مزاحمت کے لئے پیپلزپارٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کو خدشہ ہے کہ نواز شریف یونائٹیڈ فرنٹ کے نام پر ایک دفعہ پھر دھوکہ کریں گے۔ پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے 2000ء میں ہمارے ساتھ مل کر اے آر ڈی بنائی اور کچھ ہی ہفتوں میں پرویز مشرف سے معاہدہ کرکے نواز شریف سعودی عرب چلے گئے۔

2010ء میں پیپلزپارٹی نے 18ویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا راستہ ہموار کیا اور 2015ء میں وہی نوازشریف تھے جنہوں نےراحیل شریف کی ناراضگی کے خوف سے آصف زرداری کے ساتھ ایک پہلےسے طے شدہ ملاقات منسوخ کردی۔

پیپلزپارٹی کے یہ شکوے شکایتیں اپنی جگہ لیکن پیپلزپارٹی کو پارلیمنٹ کے اندر موجودہ جمہوری نظام کے استحکام کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کا ایک دوسرے سے ذاتی اختلاف دونوں جماعتوں کی قبائلی دشمنی نہیں بننا چاہئے۔

پیپلزپارٹی کو نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایسا موقف اختیار کرنا چاہئے کہ آئندہ انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ ختم ہو جائے۔ آج کل نواز شریف اور آصف زداری کے تعلقات میں تلخی دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے؎

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

رنجشیں اپنی جگہ لیکن سیاستدانوں کو اہم قومی مقاصد کے لئے ایک دوسرے سے بات چیت کے راستے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کرنا چاہئے لیکن انتخابات کا بروقت انعقاد ایک اہم قومی مقصد ہے اس اہم قومی مقصد کا حصول سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

خدانخواستہ انتخابات ملتوی ہوگئے تو ذمہ داری ایک جماعت پر نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں پر بطور ایک طبقہ عائد کردی جائے گی لہٰذا اِدھر اُدھر کی چھوڑیں اور سسٹم کو بچائیں۔

یہ کالم 9 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔