14 نومبر ، 2017
سیانے کہتے ہیں کہ ایک جانب پاکستانی عوام ہیں جو بے وقوفی کی حد تک معصوم ہیں یا ان کی معصومیت بے وقوفی کی حدیں پار کر رہی ہے اور دوسری جانب پاکستانی سیاست دان ہیں جن کی چالاکیاں تمام حد یں پار کر رہی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ سیاست دان عوام کی معصومیت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ عوام غریب سے غریب تر جب کہ سیاستداں اور ان کے زیر سایہ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان شہنشاہ وقت اور عوام بیچاری ان کی رعایا ہے اور یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ’جس طرح عیار لوگ وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنا لیتے ہیں‘ بالکل اسی طرح سیاست دان جوں جوں انتخابات قریب آتے ہیں وہ جلسے کرکے عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے پھر پانچ سالوں کے لیے بے وقوف بنا دیتے ہیں۔
عوام کی معصومیت یا مجبوری کا یہ حال ہے کہ وہ ان ہی سیاست دانوں اور پارٹیوں کو ہر بار ووٹ دیتے ہیں کہ جس نے قومی دولت کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہو ،اس نے ملک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی شہریت کو بھی داغ دار کر دیا ہو۔
ایوان میں چند ایک ایسے ممبران بھی ہیں جن پر ایک سے چھ تک مقدمات درج ہیں لیکن وہ شرمندہ ہونا تو دور کی بات پوری ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ثابت کر سکتے ہو تو کرلو اور جوں ہی ان کی ایک بھی بد عنوانی ثابت ہونے والی ہو تو ملک سے فرار ہو کر بیماری کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔
تہذیب یافتہ ممالک میں مقدمہ درج ہونا تو دور کی بات،کسی سیاسی یا دیگر اہم شخصیت پر الزام بھی لگ جانے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے ہیں،مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑہ ہوا ہے۔
سیاست دان انتخابات کے دوران اپنی عوامی رابطہ مہم میں عوام سے ایسے گھل مل جاتے ہیں اور ان کے خادم بنے دکھائی دیتے ہیں اور عوام کی دلجوئی کے لئے ہر وعدہ کرتے ہیں اور مقصد نکل جانے کے بعد یوں غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کےسر سے سینگھ۔
بیچاری عوام انہیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہے اور وہ ٹھنڈے کمروں اور ٹھنڈی گاڑیوں میں طاقت کے مزے لوٹتے رہتے ہیں، منتخب ہونے والے کئی رکن تو دو دو سال حلقے کا رخ نہیں کرتے اور وزراء سمیت کئی ارکان اسی اسمبلی جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے جس کے تقدس کا وہ بھرم بھرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ان کی عزت ہے۔
یہ جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور اس کے چمپئن بنتے ہیں مگر خود ان کی جماعتوں میں جمہوریت نام کو نہیں، الیکشن کمیشن کی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے پارٹی الیکشن کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور پارٹی میں عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کاغذ کا ایک ٹکڑا الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی خرابی ’موروثی سیاست‘ہے جو پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتی، کسی بھی پارٹی میں دیکھ لیں بچے تیار کیے جا رہے ہیں گویہ یہ کوئی ریاست ہے اور اس کا والی اپنی نسلوں میں ریاست کو تقسیم کرکے جاتا ہے۔
عوام بے چاری ساری زندگی ان کے غلام بنے رہتے ہیں اور پہلے باپ کے غلام اور پھر ان کی نسلوں کے غلام یعنی عوام کی قسمت میں غلامی اور سیاستدانوں کا مقدر حکمرانی۔
یہ حکمران تعلیم سے عوام کو دور رکھتے ہیں وہ ، ان کے حواری اور ان کے زیر سایہ اشرافیہ کے بچے بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے اعلی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں لیکن عوام کے لیے ٹاٹ کے پیلے اسکول بھی دستیاب نہیں۔
سیاست دان ہو، صنعت کار ہو یا زمیندار اسے شاید یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر غریب کو پیٹ بھر کر روٹی مل گئی اور اس کے بچوں نے معیاری تعلیم حاصل کر لی تو ان کو کون پوچھے گا اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھا جائے تاکہ ان میں سیاست کا شعور پیدا نہ ہو اوران کے خاندان کی حکمرانی قائم رہے اور وہ نسل درنسل ملکی خزانے لوٹتے رہیں اور ان سے کوئی جواب طلبی نہ کی جائے۔
ملک قرضوں کے بوجھ تلے دھنستا جائے اور ان کے اندورن ملک اور بیرون ملک جائیدادوں اور اثاثوں کے انبار لگتے چلے جائیں۔
ہر سال اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے لیے جاری ہوں اور وہ منصوبے یا تو صرف فائلوں میں ہی مکمل کرکے سارا مال ہڑپ کر لیتے ہیں یا عوام کو دکھانے کے لیے نہایت غیر معیاری کام کرکے فائل بند کر دی جاتی ہے۔
سیاست دان اور ان کے گھر والے حکومت کے خرچے پر بیرون ملک علاج کروائیں اور بے چاری عوام کو سرکاری اسپتالوں سے سر درد کی ایک گولی بھی نہ ملے، حکمرانوں کے گھروں کے اطراف صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام ہو اور عوام کچرے کے ڈھیر پر زندگی گزارتے رہیں۔
ہمارے ملک کے موجودہ اور سابق حکمرانوں سمیت عمران خان کو بھی لے لیں تو کوئی بھی دو سے تین سو کنال کے گھر سے کم میں نہیں رہتا اور منافقت دیکھیں کرتے غریب کی بات ہیں۔
اللہ سب کو صحت اور تندرستی سے رکھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے کبھی کسی سیاست دان کے گھر والوں میں کسی کو چکن گونیا ہو یا ڈینگی بخار میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھا اور یہ سب تو صرف غریب عوام کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔
سیاست دانوں کے بچے بڑی بڑی گاڑیوں میں حکومت کی فراہم کردہ سیکیورٹی کے ساتھ گھومیں اور عوام سڑکوں پر رلتی رہے، ان کے لیے نہ تو آرام دہ ٹرانسپورٹ ہو اور نہ ہی عزت کے ساتھ روزگار کے مواقع۔
عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے قانون سازی تو دور کی بات ایسی کسی قرارداد کی بازگشت بھی ایوان میں نہیں سنی جائے اور سیاست دان کو بچانے کے لیے ایک دن میں نیا قانون بنا کو منظور کروا لیا جائے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کا بات بات پر استحصال ہوتا ہو اور عوام کی کوئی عزت نہ ہو۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی سیاسی چالوں سے عوام میں کبھی سیاسی شعور کی بیداری اور آگاہی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور وہ ایسا کریں بھی کیوں ؟ کیوں کہ اگر عوام میں سیاسی بیداری آ گئی تو پھر ان کا کیا بنے گا۔
عام پاکستانی کو تو یہ بھی علم نہیں کہ کونسلر، صوبائی نمائندے اور قومی رکن اسمبلی کے اختیارات اور ذمہ داریوں میں کیا فرق ہے؟ عوام کی اکثریت اپنے علاقے کے نمائندے کو شکل سے بھی پہچان نہیں سکتی جس میں ان کا کوئی قصور نہیں وہ پہچانے بھی تو کیسے؟ منتخب ہونے کے بعد وہ ’عوامی نمائندے‘ اپنے علاقے سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ ’جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں‘ ۔
سیاسی شان و شوکت دیکھیئے تو ایسی کہ الامان و الحفیظ ، پولیس کی ذمہ داری حکمرانوں کی چوکیداری کیوں کہ ان کے حکم عدولی پر کالے پانی کی سزا کے طور پر ایسی جگہ تبادلہ کر دیا جائے جہاں پانی بھی نا ملے۔
اگر عدلیہ کسی پارٹی سربراہ کے خلاف احکامات دے اور اس کی بد عنوانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سوئز عدالتوں کو خط لکھنے کا کہے تو اس حکم کو ہوا میں اڑا دیا جائے۔
اگر عدلیہ کسی سربراہ کو نا اہل کرے تو قومی اسمبلی سے بل منظور کرکے قانون ہی تبدیل کر دیا جائے کیوں کہ سیاست تو اس لونڈی کا نام ہے جس کا کام سیاست دانوں اور خصوصاً حکمرانوں کے مفادات کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا ہے۔
کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کو تو نرے جھوٹے وعدوں پر ہی ٹالا جا سکتا ہے اور جب عام انتخابات کا موقع آئے تو ووٹرز کے آگے اپنی بے بسی کا رونا رو کر ان کی ہمدردی باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ہاں ایک بات ہے کہ اگر کوئی سیاست دان کسی طرح قانون کے شکنجے میں پھنس جائے تو دیگر اس کی ٹانگ کھینچنے میں دیر نہیں کرتے اور کوئی کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ جاتا ہے اور کوئی فون اٹھانا بند کر دیتا ہے یعنی سیاست میں ’جیسے کو تیسا‘ والا اصول چلتا ہے لیکن عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اس صورت حال پر اگر عدالت ’ڈان یا سسلین مافیا" جیسے القابات سے مخاطب کرے تو کیا غلط ہے؟ اب تو حالات ایسی نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں سیاست اور منافقت کچھ ایسے گڈ مڈ کر دیے گئے ہیں کہ ان میں فرق ختم ہو گیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔