وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور

 وفاقی وزیر قانون زاہد حامد—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا  استعفیٰ منظور کرلیا۔

زاہد حامد نے گزشتہ روز رضاکارانہ طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو استعفیٰ پیش کیا تھا جسے منظور کرلیا گیا۔

کابینہ ڈویژن نے زاہد حامد کے وزارت قانون سے مستعفی ہونے ہونے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔

زاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی میں ان کا براہ راست کردار نہیں تھا اور اسے مشترکہ کمیٹی نے منظور کیا تھا تاہم ملک کو درپیش بحران کے خاتمے کے لیے وہ عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں۔

زاہد حامد کے استعفیٰ کی اندرونی کہانی

ذرائع کے مطابق زاہد حامد کے استعفے کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کے بعض ارکان شدید مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ زاہد حامد کے استعفے کا مقصد حکومت کو نیچا دکھانا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت اسلام آباد میں امن و امان سے متعلق ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی شرکت کی اور اس اجلاس میں طے پایا تھا کہ راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ میں جن 2 وزرا کے نام آئے ہیں وہ استعفیٰ دیں گے۔

ذرائع کے مطابق زاہد حامد کے استعفے میں شہباز شریف نے بھرپور کردار ادا کیا، شہباز شریف اسلام آباد سے دوبارہ لاہور پہنچے جہاں زاہد حامد کو بھی بلایا گیا۔

شہباز شریف اور زاہد حامد کے درمیان ہونے والی ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے ملکی مفاد میں زاہد حامد کو استعفیٰ پر قائل کیا۔

مظاہرین دھرنا ختم کرنے پر راضی

وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد وفاقی حکومت اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیئے بیٹھی مذہبی جماعت 'تحریک لبیک' کے درمیان معاملات طے پاگئے اور دھرنا ختم کردیا گیا۔

ذرائع نے معاہدے کے حوالے سے بتایا کہ راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے گی جبکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

معاہدے کے مطابق 6 نومبر کے بعد سے مذہبی جماعت کے گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمات بھی ختم کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد-راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر ایک مذہبی و سیاسی جماعت 'تحریک لبیک'کی جانب سے 22 روز قبل دھرنے کا آغاز کیا گیا، جس میں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

مذہبی و سیاسی جماعت نے یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا جب رواں برس اکتوبر میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم منظور کی تھیں، جس میں 'ختم نبوت' سے متعلق شق بھی شامل تھی، لیکن بعد میں حکومت نے فوری طور پر اسے 'دفتری غلطی' قرار دے کر دوسری ترمیم منظور کرلی تھی۔

تاہم مذہبی جماعت نے یہ ترمیم کرنے والے کا نام منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا۔

حکومت نے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم مذاکرات کے تمام ادوار ناکام ہوگئے تھے۔ 

بعدازاں ہفتہ (25 نومبر) کو فیض آباد انٹرچینج کلیئر کرانے کے لیے پولیس اور ایف سی کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

اس آپریشن کے بعد مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا جس کے بعد حکومت نے آپریشن معطل کردیا اور وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی تازہ ترین ملاقات میں معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

تاہم وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے پر معاملات طے پاگئے اور دھرنا ختم کردیا گیا۔

مزید خبریں :