روح کا باب 'رباب'

رباب کے ساز کو زندہ رکھنے کیلئے پشاور کے گلوکار اور موسیقار کوشاں ہیں اور اس کا چراغ گُل نہیں ہونے دینا چاہتے۔


ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا کی شامیں بھی عام شاموں کی طرح ہی ہوتی ہیں لیکن وہاں کے اونچے پہاڑوں، بہتے دریاؤں، موج مناتی ہواؤں اور کھلکھلاتے پھولوں کی خوشبو کو اکثر ’رباب‘ کا ساز منفرد بنا دیتا ہے۔

رباب عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’روح کا دروازہ‘ ہیں، موسیقی کا یہ آلہ عام طور پر شاتوت کے درخت سے بنتا ہے۔

اس کا اوپری حصہ لمبا اور نیچے کا حصہ طنبورے کی طرح ہوتا ہے جس پر بہت سے تار ہوتے ہیں، اس کی دھن کانوں میں رس گھول کر سننے والوں کو مدہوش کردیتی ہے۔

رباب، خیبرپختونخوا بالخصوص پشاور کی ثقافت کا اہم جز ہے۔ ایک وقت تھا جب پشاور کے لوگوں کی ہر تقریب، ہر جشن میں رباب کا ساز ساتھ ساتھ ہوتا تھا، جس سے ان کے چہروں پر مسرت دکھائی دیتی تھی۔

پشاور کے موسیقار اور گلوکاروں کا ماننا ہے کہ رباب مقامی روایتی آلات موسیقی کا بادشاہ ہے۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پشاور کی ہر گلی، محلے، بازار غرض ہر جگہ موسیقی، اتنڑ ڈانس اور ثقافت کے منفرد رنگ بکھرے نظر آتے تھے، یہاں سیاح بھی آتے تو  رباب کی دھن اور اتنڑ ڈانس سے اتنے لطف اندوز ہوتے کہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ شاید کوئی جشن منایا جا رہا ہے یا پھر کوئی خاص دن ہے۔ اتنڑ اور رباب کے لیے باقاعدہ خصوصی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جہاں رباب سیکھنے کے شائقین، رباب بجانے اور سننے والے سب ہی لوگ اکھٹے بیٹھ کر گھنٹوں گھنٹوں گفتگو کرتے اور مسکراہٹیں بانٹتے تھے۔

ایک وقت تھا جب پشاور میں رباب سیکھنے، بجانے اور سننے والوں کی محفلیں عام منعقد ہوتی تھیں—۔فوٹو/عفرا فاطمہ

یہ محفلیں لوگوں کو رنگ و نسل کی بحث اور لسانی و فرقہ ورانہ تفرقات سے دور رکھتی تھیں اور اس کے ذریعے یہاں امن اور خوشحالی کی فضاء پھیلی رہتی تھی۔

لیکن 2006 میں ایک دور ایسا آیا جب انتہا پسندوں  اور دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا کی خوشیوں پر حملہ کردیا، جس سے وہاں کا ایک ایک شخص متاثر ہوا اور تعلیمی اداروں، سرکاری سرگرمیوں، بازاروں اور سیاحتی مقامات غرض ہر شے پر دہشت گردی کے سیاہ بادل چھا گئے۔

یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردی پشاور سمیت صوبے بھر میں عروج پر پہنچ گئی، پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل چترالی کا کہنا ہے کہ ’اُس وقت اسکول تباہ کیے گئے، خواتین کو محصور کیا گیا اور موسیقی کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ حالتِ جنگ کی صورت بن جائے اور ہر جگہ دہشت قائم ہوجائے۔‘

 دہشت گردی کا اثر پشاور کی ثقافت پر بھی پڑا اور رباب کی محفلیں خالی ہونا شروع ہوگئیں—۔فوٹو/عفرا فاطمہ

دہشت گردی کا خوف ایسا چھایا کہ لوگ کسی بھی محفل میں جانے اور اکھٹے ہونے سے کترانے لگے اور موسیقاروں اور گلوکاروں کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ پشاور کا نشتر ہال ثقافتی فن دکھانے کا واحد مرکز تھا، جہاں فنکار اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن شر پسندوں نے اسے بھی بند کروادیا۔

اس سب سے پریشان ہو کر کئی موسیقار اور گلوکار پشاور چھوڑ کر دوسرے شہروں میں منتقل ہونے لگے۔ 2008 میں مشہور پشتون گلوکار ہارون باچا پشاور بلکہ پاکستان ہی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے امریکا چلے گئے جب کہ گلزار عالم پشاور سے کراچی منتقل ہوگئے، تاہم ان کے لیے موسیقی کو چھوڑنا ایسا تھا جیسے پانی میں سے مچھلی نکال دی جائے۔

گلزار عالم کے مطابق ان کے لیے موسیقی کو چھوڑنا ایسا تھا جیسے پانی میں سے مچھلی کا نکال دینا—۔عفرا فاطمہ

لیکن پشتون ثقافت نے ان حالات میں ہار نہیں مانی اور دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 2008 میں گلزار عالم کو متحدہ مجلس عمل نے نہ صرف پشاور میں دوبارہ آنے اور ثقافتی گلوکاری کو زندہ کرنے کے لیے مدعو کیا بلکہ نشتر ہال کو بھی دوبارہ کھولا گیا۔

 اُس وقت حالات ایسے تھے کہ ہر کوئی پشاور میں رہنے سے گھبراتا تھا، لیکن گلزار عالم نے بڑی ہمت اور حوصلے سے اس دعوت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ایک نئے عزم سے پشاور کی ثقافتی موسیقی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنے قدم بھی بڑھائے۔

پشتون گلوکار گلزار عالم کا کہنا ہے کہ'موسیقی نے مجھے جینے اور نامناسب حالات میں رہنے کا فن سکھایا ہے'۔ 

ان کا کہنا تھا کہ فنکار ہنر مند ہوتا ہے وہ کسی سے نا کوئی ذاتی دشمنی کرتا ہے، نا سیاست اور نا کسی کو دکھ پہنچانا چاہتا ہے بلکہ وہ تو امن کا طلب گار ہوتا ہے اور موسیقی بھی امن کی علامت ہے، امن ہوگا تو ہر چیز کو فروغ ملے گا اور موسیقی بھی پھلے پھولے گی۔

گلزار عالم کبھی بھی، کسی بھی حالات میں ناامید نہیں ہوئے بلکہ وہ تو ناامیدی میں بھی امید ڈھونڈ لیتے ہیں اور اب انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات مزید بہتر ہوجائیں گے اور ثقافت کے رنگ یعنی اتنڑ، رباب اور ڈف 'آزادی کے ساز' کی نشاندہی کریں گے۔

ان تمام حالات میں بھی موسیقاروں نے ہمت نہیں ہاری—۔فوٹو/عفرا فاطمہ

ان تمام حالات میں بھی موسیقاروں نے ہمت نہیں ہاری، ایسے ہی ایک رباب نواز ملنگ امجد محفلوں میں جاکر چھپ کر رباب بجاتے تھے، ان کے لیے رباب چھوڑنا اپنی توہین کرنے کے برابر ہے بلکہ وہ تو رباب اور اس کی دھن کو اپنے دل سے لگا کر رکھتے ہیں۔

پشاور کے کئی طالب علم رباب سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے پرعزم ہیں کہ آنے والے دن موسیقی اور ثقافت کے لیے اچھے ثابت ہوں گے۔

پشاور کے موسیقاروں اور گلوکاروں کا ماننا ہے کہ نا وہ کبھی اتنڑ کو بھولیں گے اور  نا رباب کو، اور نا ہی کبھی طبلے کا تنگڑ بجانا چھوڑیں گے۔ وہ پر امید ہیں کہ آنے والے وقت میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا، جو ان کا وقت ہوگا اور اس کے لیے وہ پر عزم ہیں۔

ایک طرف جہاں دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے، وہیں ساز اور موسیقی کے اس تال میل کو زندگی سے جوڑے رکھنے کے لیے گلزار عالم اور دوسرے فنکاروں کی کاوشیں بھی جاری ہیں، جو خیبر پختونخوا کی موسیقی کے چراغ کو کسی صورت گُل نہیں ہونے دینا چاہتے۔

بشکریہ ’پرعزم پاکستان‘ ٹیم۔

جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔