خون آلودہ کراچی کا دہشت گردی سے ’’نجات‘‘ کا سفر

کراچی: لندن کےمیئر صادق خان جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کادورہ کیا ہے‘ کراچی کے میگا سٹی بھی آئے اور اگر ہم سمجھیں تو انہوں نے اہم خیالات کا اظہار کیا۔کراچی اور اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافہ مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ منصوبہ بندی کا ہے۔ 

اگر شہر پھیل رہا ہے اور لوگ آرہے ہیں تو یہ ایک مثبت اشارہ ہے مگر آپ کو اس کے مطابق منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے کراچی کو بڑھنے تو دیا مگر منصوبہ بندی نہیں کی جس کے نتیجے میں یہ تمام مجرموں اوردہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ 

اس نے اس کی معاشی و سماجی مرکز کی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہم نے خود پہنچایا، مجھ جیسا شخص‘ جس نے بدترین تشدد، قتل عام اورکراچی میں گزشتہ تین عشروں میں کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے تمام 3 آپریشنز کور کئے جن میں سے بعض انتہائی کامیاب جبکہ بعض خامیاں رہ گئیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح کامیابی ہوئی اور کون سے اُمور توجہ طلب ہیں جن پر توجہ نہ دی گئی تو یہ امن کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ 

1980ء اور 1990ء کی دہائی میں صحافیوں کے لئے روز مرہ کا مسئلہ ’’لاشوں کی گنتی ‘‘ تھا۔ اور وہ اپنی ’’ڈیڈ لائن‘‘ تک پہنچنے کے لئے سخت دبائو میں رہتے تھے۔ کراچی میں گزشتہ تین عشروں میں رپورٹنگ آسان نہیں رہی، اس شہر میں لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد میں ہزاروں افراد مارے گئے، جہاں 40 لاکھ سے زائد ’’پردیسی‘‘ رہتے ہیں۔ 

یہاں رہ جانے والی تین بڑی خامیوں میں ہتھیار اور منشیات کے کلچر کے خاتمے کے لئے پالیسی بنانے میں ناکامی، اسٹریٹ کرائمز روکنے کے لئے حکمت عملی کا فقدان اور کراچی کو سب سے بڑا ’’میٹرو پولیٹن شہر‘‘ تسلیم کرنے کے لئے سیاسی دانشمندی کا نہ ہونا شامل ہیں۔ 

دنیا کے کسی میٹرو پولیٹن سٹی کے پاس 13شہری ادارے ہیں اور نہ ہی وہاں ایسی بے بس شہری حکومت ہوگی جیسی پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہے۔ اس شہر کو کبھی ’’اپنایا‘‘ نہیں گیا بلکہ صرف استعمال ہی کیا گیا۔ 

اگرچہ ہم اس شہر کو ’’منی پاکستان‘‘ قرار دے سکتے ہیں مگر پے بہ پے آنے والے حکمرانوں نے اس شہر کو صرف ایک خاص لسانی نقطہ نظر سے ہی دیکھا۔ اس شہر اور صوبے کے ساتھ مردم شماری میں کیا ہوا‘ یہ خود ایک مطالعاتی کیس ہے۔

 7 ہزار سے زائد’’کچی آبادیاں‘‘ آج بھی غیر قانونی گروہوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی اور سیاسی اُتار چڑھائو ایک اور شعبہ ہے جس نے شہر کے سیاسی تانے بانے کو تباہ کیا۔

آج قبضہ مافیا جسے سیاسی و بیوروکریٹک حمایت حاصل ہے‘ شہر کے لئے بڑا خطرہ ہے، ان تمام مذکورہ بالا ’’خدشات‘‘ پر جب غور کیاگیا تو ’’سول و ملٹری ‘‘ قیادت نے کراچی کو ’’دہشت سے پاک‘‘ کرنے پر اتفاق کیا۔ شہر کو ’’دہشت سے پاک‘‘ کرنے کا اہم مرحلہ سامنے ہے۔ 

گزشتہ چار سالوں کے دوران ملنے والی کامیابی کی وجوہات درج ذیل ہیں: سب سے پہلی تو یہ کہ کراچی آپریشنز ماضی کے برخلاف مکمل غیر جانبدارانہ ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ زیادہ مرتکز اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا ہے، تیسرے یہ کہ پہلی بار اس میں جرم اوردہشت‘ جرم اور سیاست اور دہشت گردوں کو مالی امداد دینے والے گٹھ جوڑ کو توڑا گیا۔ 

پچھلے سالوں کے دوران بہت سے مبینہ کریمنلز، گینگز اور قبضہ مافیا کے لوگ سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ گروپوں میں ’’پناہ‘‘ لے لیتے تھے ، ان میں سے بہت سوں نے سیاسی اثرورسوخ کے باعث پولیس میں ’’ملازمتیں‘‘ بھی لے لیں اور یہ کام اُنہوں نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ مجرمانہ سرگرمیاں چھوڑنا چاہتے تھے بلکہ وہ اپنے تحفظ کے لئے پولیس کی ’’وردی‘‘ کو استعمال کرنے کے لئے محکمے میں گھسے‘ اس آپریشن کی کامیابی کی ایک اور وجہ غیر قانونی گروپوں کے خلاف ملک گیر آپریشنز اور شمالی وزیرستان میں بڑی کارروائی تھی۔ کراچی جسے ایک دَور میں عسکریت پسندوں کے لئے ’’محفوظ پناہ گاہ ‘‘ سمجھا جاتا تھا اسے ’’صاف‘‘ کیا گیا۔

مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ملک کو دہشت سے مکمل پاک کرنے میں مزید کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ایک اور چیلنج اور میرے نزدیک سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کا انتہا پسندی کی لعنت سے جوڑ ہے۔ اگر ہم اس محاذ پر ناکام ہوئے تو فوج‘ پولیس ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی ہزاروں جانوں کی قربانی ضائع ہو سکتی ہے۔ 

مجھے خدشہ ہے کہ اس محاذ پر اب تک بہت کچھ نہیں کیا گیا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) رضوان اختر اور موجودہ آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کراچی میں وقت گزارا اور وہ کراچی کے حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ 

گزشتہ تین سالوں میں ان کی وجہ سے بہتر رابطہ رہا ہے، ان کے ساتھ ساتھ سابق ڈی جی رینجرز اور اب چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر بھی بہت سے دوسرے لوگوں سے زیادہ کراچی کے حالات سے واقف ہیں۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کی وجہ اس کا اختیار رینجرز کو دینا بھی ہے۔

1989ء میں پی پی حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ رینجرز کو بلائے جانے کے بعد، اب پہلی بار اسے گشت اور تفتیش کے اختیارات بھی دیئے گئے۔ جس سے دہشت گردو ں اور مجرموں کو ہدف بنانے میں مدد ملی تاہم سب متفق ہیں کہ شہر کے لئے رینجرز نہیں بلکہ ’’میٹرو پولیٹن اور پیشہ ور پولیس‘‘ ہی بہتر حل ہے۔ 

بد قسمتی سے سیاسی دانش مندی موجود نہیں اس لئے آگے جانے کے بجائے ہم پھر 1861ء کے پولیس ایکٹ کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ایک چیز جس نے ماضی کی طرح اب بھی آپریشن اُمور کو دھچکا پہنچایا ہے وہ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ ہے جس کی جھلک حال ہی میں ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاکستان سر زمین پارٹی کے حوالے سے دیکھی گئی ہے۔ 

ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ کوئی سیاسی بالادستی قائم نہ کریں، ماضی میں بھی انہوں نے جب بھی ایسا کیا وہ ناکام رہیں۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپیکس کمیٹی کو اس پہلو پر توجہ دینا ہوگی اور اس اَمر کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیاسی پارٹیاں عسکریت پسندی ترک کر کے خود اپنے لئے نیا راستہ بنائیں۔ 

آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے ہی اس اَمر کا تعین ہو سکتا ہے کہ کون کراچی کی نمائندگی کر سکتا ہے ، سیاسی جماعتیں تو ڑنا یا بنانا کسی ایجنسی کا اختیار نہیں اور نہ ہی یہ آپریشن کا مقصد ہے‘ یہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے نمائندے اور سیاسی جماعت کا انتخاب کریں۔ 

کراچی آپریشن کو صرف تمام عسکریت پسندوں اور ان کی مالی مدد کرنے والوں تک محدود رکھا جائے۔ ان کے خلاف مقدمات بھی سیاسی مقاصد کے لئے نہ چلائے جائیں، ماضی میں اس قسم کی کوششیں بھی ناکام ہو چکی ہیں۔ 

عدلیہ کو بھی ان مقدمات پر تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا، جو آج تک اس آپریشن کے دوران نہیں ہو سکا۔مقدمہ چلانے کا عمل بھی بہت کمزور رہا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ شواہد اکٹھے کرنے سے زیادہ توجہ میڈیا میں تشہیر پر دی گئی، جے آئی ٹی یا ویڈیو پر اعترافی بیانات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر حکام کی توجہ سزائیں دلوانے سے زیادہ معاملات کو ’’سیاسی‘‘ بنانے پر مرکوز رہی۔

’’کراچی آپریشن2013ء‘‘ کا سہرا تمام متعلقہ حلقوں کے سر ہے مگر یہ 2009ء سے 2011ء کے درمیان ہونے والے قتل عام پر سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے از خودنوٹس کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ’’کراچی بد امنی کیس 2011ء‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والے مقدمہ کا نتیجہ انتہائی مربوط آپریشن کی صورت میں نکلا۔ کامیابی کی ایک اور بڑی وجہ سندھ رینجرز کو تمام تر غیر معمولی اختیارات دیا جانا ہے جس نے 1989ء سے شہر میں موجودگی کے باوجود پہلی بار گشت اور آپریشن کے اختیارات حاصل کئے۔سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار اس آپریشن کی کامیابی کی کلید بنا ہے جنہوں نے آپریشن شروع کرنے سے قبل تمام تین بڑی سیاسی جماعتوں، پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا اور انہیں بتایا کہ اگر ان کے مفادات کو دھچکا پہنچے یا کسی سیاسی لیڈر یا کارکن کے خلاف کارروائی ہو تو کسی نے واویلا نہیں کرنا۔ 

ضرورت اس اَمر کی بھی ہے کہ پولیس کے کردار کو بھی اُجاگر کیا جائے جسے آپریشن میں ہمیشہ فراموش یا نظر انداز کردیا گیا۔ چاہے پولیس‘ سابق آئی جی پولیس جمالی یا موجودہ آئی جی پی اے ڈی خواجہ کے ماتحت ہو یا اس کی سی ٹی ڈی ہو اس نے دہشت گردی کے کئی بڑے کیس حل کئے جن میں کراچی ایئرپورٹ حملہ، صفورا گوٹھ میں سبین محمود کا قتل کیس شامل ہیں۔ 

کراچی آپریشن دو محاذوں پر شروع کیا گیا جن میں غیر قانونی گروپ بشمول فرقہ وارانہ اور تحریک طالبان پاکستان اوردوسری جانب سیاسی جماعتوں کے مبینہ عسکری ونگ شامل تھے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ملک گیر کارروائیوں کا حصہ تھا جبکہ ایم کیو ایم کے معاملے میں پہلے اسے آگاہ کیا گیا اور ’’کلین اپ ‘‘ کے لئے وقت دیا گیا کہ وہ عسکری ونگ ختم کردے۔ 

اس حوالے سے ناموں سمیت مکمل اعداد و شمار فراہم کئے گئے۔ بعد ازاں ان میں سے بہت سوں کی نائن زیرو کے گرد موجودگی کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا مگر جب انتباہ کے باوجود ایم کیو ایم خود کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تو پھر نائن زیرو ، خورشید میموریل ہال اورملحقہ گھروں پر چھاپے مارے گئے، دوسری جانب سندھ حکومت اور پی پی پی کو لیاری گینگ اورعزیر بلوچ سے رابطے ختم کرنے کا کہا گیا ، یہ کام اس گروپ کی ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیوں اور قتل کے واقعات کے تناظر میں کیا گیا۔ 

پی پی کو نظم و نسق بہتر بنانے اوربڑی بد عنوانیوں پر قابو پانے کا بھی کہا گیا اور اس کے بعد ’’منی لانڈرنگ ‘‘ کے بعض کیسوں کے حوالے سے بھی خبردار کیا گیا ، سابق ڈی جی رینجرز لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی طرف سے پیش کی گئی بعض رپورٹس کے مطابق اس دوران مکمل تو جہ ایم کیو ایم کے مبینہ عسکری ونگ پر ہی مرکوز رکھی گئی جسے انتہائی منظم، مکمل تربیت یافتہ گروہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سے رابطے تھے۔ اس کے بعد لیاری کے عزیر اور بابا لاڈلا گروپوں پر نظر رکھی گئی لیکن جب ان کو ترقی دے کر تبادلہ کیا گیا تو انہوں نے اس اَمر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ انہوں نے عسکریت پسندی کا تقریباً خاتمہ کردیا ہے، جنرل بلال اکبر جرم اور سیاست، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد کے درمیان گٹھ جوڑ کے بھی قائل تھے جب اُنہوں نے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے کچھ لوگوں سے رابطے دیکھے۔ 

یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس معاملہ میں ایک بار بلاول ہائوس کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگا دیا ،2کروڑ سے زائد کے اس شہر نے اس منزل تک پہنچنے کے لئے بڑا سفر کیا ہے، جہاں آئندہ چند ماہ میں نیشنل سٹیڈیم میں ’’پی ایس ایل ‘‘ کا فائنل ہوگا جو شیرٹن دھماکے کے بعد ہونے والا پہلا بڑا ایونٹ ہے جس کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم واپس چلی گئی تھی جو 2002ء میں دھماکے کے مقام کے سامنے ہوٹل میں مقیم تھی۔

نوٹ: یہ تجزیہ 12 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔

مزید خبریں :