16 دسمبر ، 2017
لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ ’ہم پوری دیانت سے فیصلے کرتے ہیں اور ہم پر کوئی دباؤ نہیں جب کہ کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو ہمیں دباؤ میں لائے‘۔
لاہور میں پاکستان بار کونسل کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارے نظام میں تاخیر سب سے بڑی خرابی ہے، وہ سائل جو حق پرہے جسے ہر پیشی پر جانا ہے، وہ دن اس کی فیملی کے لیے موت کا دنا ہے، وہ کبھی جج، کبھی وکیل کی مصروفیت کی وجہ سے لوٹ کر آتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سال ہم نے کس طرح گزارا، پانچ ایک بینچ میں تین، ایک بینچ میں روزانہ پھنسے ہوئے تھے، باقی چار پانچ ججز تھے جنہیں کبھی لاہور، بلوچستان، پشاور اور کراچی بھیجا جاتا، اب آئندہ آنےوالے وقتوں میں معاملات ٹھیک ہوجائیں، سیاسی گند سپریم کورٹ کی لانڈری سے نکل جائے تو عام آدمی کے مقدمات کو بھی وقت دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیمبر جاکر جج حضرات کو گالیاں دینا کہاں کا شیوہ ہے، ایک جج کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ہم لوگوں کو ان کے معیار کے مطابق انصاف نہیں دے پائے، لوگوں کو انصاف فراہم کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا ادارہ آپ کا بزرگ ہے، جب بزرگ فیصلہ کرتا ہے تو کوئی بزرگ کے خلاف گالیاں نہں نکالتا، اس بزرگ کی ایمانداری پر شک نہ کریں، آپ کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو یہ مت کہیں بابا کسی پلان کا حصہ بن گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کسی پلان کا حصہ نہیں بنیں گے، پوری ایمانداری، جذبے اور دیانت سے فیصلے کرتے ہیں، کسی کے خلاف فیصلہ ہو تو وجہ ٹھیک نہیں ہوسکتی لیکن پلان اور دباؤ کہاں سے آئے، کس نے ہمیں کہا اس طرح فیصلہ کرو، آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو ہمیں دباؤ میں لائے۔
انہوں نے کہا کہ قسم کھا کر کہتا ہوں ادارے پر کوئی دباؤ نہیں، فیصلے ضمیر کے مطابق کرتے ہیں، چیف جسٹس بننے کی عزت ملنی تھی اس سے بڑی عزت نہیں مل سکتی، اگر دیانت داری آزادی سے کام کریں تو اور عزت ملے گی، کیا ہم اتنا بڑا انعام چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے فیصلے میں پارلیمنٹ کی حاکمیت تسلیم کی ہے اسے پڑھا جائے، ریاست کے تمام اسٹرکچر جمہوریت کے ساتھ ہیں، اگر جمہوریت نہیں تو آئین نہیں، اللہ نہ کرے اگر آئین نہیں تو ملک پر آنچ آئے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے قسم اٹھائی ہے کہ اپنے آئین کا تحفظ کریں گے، اپنے بچے کو شرمندگی کے ساتھ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔
ان کا کہنا تھا وکلا ججز کی معاونت کریں، اپنے ادارے کو مضبوط کرنے میں تعاون کریں، تبصرہ کرنے والے لوگ جنہوں نے فیصلہ نہیں پڑھا ہوتا، انہیں حالات پتا نہیں ہوتے وہ ایسا قصہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بھی سن کر حیران ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حلفاً کہتا ہوں مجھے نہیں پتا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ اسی دن آنا ہے، میں نے کہا ہے کہ کوئی فیصلہ ایک ماہ سے زیادہ محفوظ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آپ کو خوش ہونا چاہیے اور اپنی عدلیہ پر ناز ہونا چاہیے، پہلے کہا جاتا تھا کہ آزاد عدلیہ پر قدغن باہر سے ہوتی ہے اب ہر جج آزاد ہے، اگر کسی کا زور چلتا ہوتا تو پھر حدیبیہ کا فیصلہ اس طرح سے نہ آتا جس طرح سے آیا، ہر جج فیصلے لینے میں آزاد ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ٹی وی پر ات کو تبصرے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں کوئی تقسیم نہیں ہے، ججز اپنے علم کے مطابق کام کررہے ہیں، ہر جج اپنی رائے دینے میں آزاد ہے، حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں، جتنے فیصلے کیے ضمیر اور قانون کے مطابق کیے، آئندہ بھی ایسے فیصلے کرتے رہیں گے اور مایوس نہیں کریں گے۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قانون میں اگر کہیں غلطی ہو تو نشاندہی کرنا جج کی ذمے داری ہے، قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جج کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
بعد ازاں جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کی بیماری کرپشن اور جھوٹ ہیں، لیکن اس سے بھی بڑا عذاب مقدمہ سازی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جعلی دستخطوں سے جائیدادیں دوسروں کے نام کر دی جاتی ہیں، معاشرے سے کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اللہ تعالی نے منصف بنا کر بھیجا ہے اس لیے کام کوعبادت سمجھ کر کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے سقم کی نشاندہی کر سکتے ہیں، لیکن ہم نے اپنے قانون کو جدید تقاضوں کے مطابق بہتر نہیں کیا، مقدمہ سازی میں تاخیر پر بہت دکھی ہوتا ہوں جب کہ عدالتوں کے چکر لگانے والے بڑے کرب سے گزرتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو آزاد کریں، میں اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن ان لوگوں کو دیا جائے جو اسے مکمل وقت دے سکیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شرمندہ ہوں کہ قانونی اصلاحات میں اب تک کچھ نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی قوانین میں ترمیم کے لیے میری مدد کریں تاکہ قوم کو بےانصافی سے نکال سکوں۔ ماتحت تعریف کرتے ہیں لیکن مزہ تب آئے گا جب سربراہ آپ کی تعریف کرے۔