شریف خاندان سے متعلق دستاویزات کی فراہمی سے برطانیہ، سوئٹزرلینڈ کا اظہار معذوری

برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں نے شریف خاندان کے خلاف مطلوبہ دستاویزات کے حصول میں اپنی ناکامی کا اظہار کیا ہے جس سے قومی احتساب بیورو کو سابق برطرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف جاری کرپشن کے مقدمات میں قابل عمل شہادت جمع کرنے کی کوششوں کو سنگین دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

جے آئی ٹی اور نیب نے درجنوں لیٹرز آف ریکوئسٹس کے ذریعے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی (انٹ، کرمنیلٹی یونٹ) اور فیڈرل آفس آف جسٹس، انٹیل۔ لیگل اسسٹنس ڈویژن آف سوئٹز رلینڈ سے شریف خاندان کی جائیدادوں، دولت اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں حساس معلومات طلب کی تھیں۔ 

نیب کے ایک سینئر اہلکار نے جو باہمی قانونی معاونت سے متعلق ڈیل کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ٹائم باؤنڈ پروسیجرل اور قانونی پیچیدگیاں برطانوی اور سوئس حکام سے نتیجہ خیز شہادتوں کو جمع کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہیں۔ 

دونوں ممالک نے مخصوص دستاویزات شیئر کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کی ہے۔ 

پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے کرپشن کی دفعہ 46 اور نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 21 کے تحت برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی اور سوئس آفس آف جسٹس کو گزشتہ 6 ماہ کے دوران ایک درجن کے قریب خطوط تحریر کیے۔

اس سلسلے میں نواز شریف کے قریبی ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ نیب وہ چیزیں کہاں سے لائے گا جن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ 

والیوم دس کی ایگزیکٹو سمری جو اس نمائندے نے خصوصی طور پر حاصل کی ہے، سے انکشاف ہوتا ہے کہ حکام نے 6 جون کو 34 لاکھ 62 ہزار 968 ڈالر جو پاکستان سے متعدد جعلی اکاؤنٹس سے جس اکاؤنٹ میں گئے اس کی تفصیلات طلب کیں اور یکم جولائی کو ساڑھے تین لاکھ ڈالر کی منتقلی کی تفصیلات طلب کیں جو سلمان ضیاء کے اکاؤنٹ سے ایک آف شور کمپنی میسرز شیمروک کنسلٹنگ کارپوریشن (اکاؤنٹ نمبر 12135914)لولوائڈ بینک، اسٹاک مارکیٹ برانچ لندن میں تین جنوری 1993 سے یکم فروری 1993 کے دوران سوئس حکام کی جانب سے تین ٹرانزیکشن میں ہوئے۔ 

یہ رقم ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر مبینہ طور پر شیمروک کنسلٹنگ کارپویشن کی جانب سے زیورخ میں بینک پاریباس این سلوو میں مسٹر ہینس روڈولف کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔ مسٹر ہینس بینک پاریباس اور میسرز اینسبیچر کے ڈائریکٹر تھے جو مبینہ طور پر شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا انتظام چلا رہے تھے۔ 

پاناما جے آئی ٹی نے 27 مئی 2017 کو برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی، ہوم آفس، لندن سے مے فیئر پراپرٹیز کا گراؤنڈ رینٹ، یوٹیلٹی بلز، ٹیکس ریکارڈ اور حقیقی بینیفشل اونر کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

جے آئی ٹی نے 6 جون 2017 کو دوبارہ ہائی کورٹ آف جسٹس ، کوئنز بینچ ڈویژن لندن کے کیس نمبر 1998 اے 991 کے فیصلے اور تمام احکامات طلب کیے۔ (التوفیق کمپنی فار انویسٹمنٹ فنڈز لندن بنام حدیبیہ پیپر ملز لمیٹیڈ) اس میں عدالت سے باہر فریقین کے مابین تصفیے کی دستاویزات، لون سیٹسفیکشن کے موڈ کو ظاہر کرنے والا ثبوت اور جس نےقرض واپس کیا اس کی شناخت بھی شامل تھی۔ 

27 جون 2017 کو جے آئی ٹی کی درخواست پر پاکستان کے دفتر خارجہ نےبھی ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر کی رمیٹنس سے متعلق ریکارڈ طلب کرنے کے لئے درخواست کی تھی۔ 

والیوم ٹین سے مزید انکشاف ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی نے 27 جون 2017 کو سی جی آئی، نیلسن اور نیسکول کی جانب سے مے فیئر کی جائیداد رہن رکھ کر حاصل کیے گئے قرض سے متعلق ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔ پاناما جے آئی ٹی نے ایون فیلڈ پراپرٹیز کے بارے میں بھی تفصیلات طلب کی تھیں۔ 

جے آئی ٹی ارکان نے برطانوی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ دستیاب معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ میسرز نیلسن، سی جی آئی اور نیسکول لمیٹیڈ نے ڈوئچے بینک سے قرض حاصل کیا تھا اور اس کے لئے مے فیئر کی جائیداد ستمبر 2008 میں رہن رکھوائی تھی۔ رہن کے معاہد ے پر لندن میں سی جی آئی کی جانب سے حسین شریف اور مریم صفدر نے دستخط کیے تھے۔ 

پاکستان نے سوئس اتھارٹیز سے میسرز شیمروک کنسلٹنگ کارپوریشن اور اینس بارچر اے جی، ان اداروں کے نام پر کھولے گئے بینک اکاؤنٹس اور مسٹر ارس پیکر کی جانب سے دونوں کمپنیوں کی مینجمنٹ اور انکارپوریشن سے متعلق شریف خاندان کے لئے خدمات کے بارے میں بھی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔ 

پاکستانی حکام نے برطانوی اتھارٹیز کو مزید مطلع کیا تھا کہ ایک جعلی اکاؤنٹ 26 اگست 1992 کو لاہور میں حبیب بینک اے جی ریورخ میں سلمان ضیاء کے نام پر کھولا گیا تھا۔ اس نمائندے کی جانب سے کئی مرتبہ کوشش کرنے کے باوجود نیب حکام نے اس رپورٹ کے فائل کیے جانے تک دی نیوز کے سوالات کا جواب نہیں دیا تھا۔

نوٹ: یہ خبر 20 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔

مزید خبریں :