2017: ناکامیوں نے پاکستان ہاکی کا پیچھا نہ چھوڑا

پورے سال ناکامیاں زیادہ اور کامیابیاں کم کم ہی گرین شرٹس کے ہاتھ آئیں۔

ایک سال اور بیت گیا لیکن ناکامیوں نے پاکستان ہاکی ٹیم کا پیچھا نہ چھوڑا۔

2017 میں پاکستان ہاکی ٹیم کو آسٹریلیا سے تاریخ کی بدترین شکست ہوئی، بھارتی ٹیم نے 6 بار گرین شرٹس کو شکست سے دوچار کیا، اور تو اور جاپان و آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف بھی پاکستان ہاکی ٹیم کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

قصہ مختصر پورے سال ناکامیاں زیادہ اور کامیابیاں کم کم ہی گرین شرٹس کے ہاتھ آئیں۔


2017 میں کھیلے گئے ہاکی میچز

پاکستان نے سال 2017 میں 42 میچز کھیلے، جن میں سے 24 میچز میں اسے شکست ہوئی، 12میں کامیابی ملی جبکہ 6 میچز ڈرا ہوئے۔

ٹورنامنٹس اور چیمپیئن شپس

قومی ٹیم نے رواں برس 5 ٹورنامنٹس اور چیمپئن شپس میں شرکت کی، جن میں ایشینز چیمپئنز ٹرافی میں دوسری، ایشیاء کپ میں تیسری، اذلان شاہ میں پانچویں، ورلڈ لیگ میں ساتویں جبکہ آسٹریلیا میں چار ملکی ایونٹ میں سب سے آخری پوزیشن ہاتھ آئی۔

پاکستان ہاکی ٹیم نے رواں برس 3 ممالک کے خلاف سیریز کھیلی، لیکن کسی بھی سیریز میں فتح نہ مل سکی۔

آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے 6 میچز کھیلے، جن میں آسٹریلیا نے 29 گول کیے جبکہ پاکستان ٹیم صرف 6 گول کرسکی۔

بھارت کے خلاف بھی 6 میچز کھیلے، جن میں بھارت نے 28گول کیے جبکہ پاکستان ٹیم صرف 6گول ہی کرسکی ۔

ان تمام تر شکستوں کے باجود پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوگئی اور  اس کی بڑی وجہ ورلڈ کپ میں 12 سے 16 ٹیمیں شامل کرنا بنی۔

ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی بھی رواں برس زیادہ تسلی بخش نہ رہی، ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ٹیم میں اتنی تبدیلیاں کی گئیں، جو خود فیڈریشن کی پریشانی کا باعث بن گئیں۔

2017 میں فیڈریشن نے دو ٹیم مینجمنٹ بدلیں، پہلے حنیف خان کو ہیڈ کوچ بنایا گیا اور پھر یہ ذمہ داری فرحت خان کو سونپ دی گئی، جب اس تبدیلی سے بھی نتائج نہ بدلے تو فرحت خان بھی مستعفی ہوگئے۔

اسی طرح دو بار چیف سلیکٹر تبدیل ہوئے، پہلے رشید جونئیر ٹیم کا انتخاب کرتے رہے پھر یہ ذمہ داری حسن سردار کو دے دی گئی، پھر فرحت خان کو دوبارہ سلیکشن کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔

کپتانی کی سطح پر بھی اتنی ہی بار تبدیلیاں ہوئیں، عبدالحسیم خان کو ہٹا کر محمد عرفان کو قیادت دے دی گئی۔

غیر ملکی لیگ کھیلنے والے سینئر کھلاڑیوں پر پہلے ٹیم کے دروازے بند کردیئے گئے، پھر سینئرز کو واپس لے لیا گیا، اچھے نتائج پھر بھی نہ آئے تو دوبارہ سینئر کو باہر کردیا گیا۔

گو کہ فیڈریشن نے تمام سطح پر تبدیلیاں کرکے دیکھ لیں لیکن ٹیم کو شکست کے بھنور سے نہ نکال سکی۔

فیڈریشن کا اچھا اقدام

رواں برس پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سب سے اچھا اقدام کھلاڑیوں کو ان کے واجبات کی ادائیگی تھی۔

گزشتہ فیڈریشنز نےڈیلی الاؤنس کی رقم کھلاڑیوں کو نہیں دی تھی، وہ موجودہ فیڈریشن نے کلیئر کیں اور تمام کھلاڑیوں کے اکاؤنٹس میں ان کے ڈیلی الاؤنس کے پیسے ٹرانسفر کیے، البتہ سال کے آخر میں کچھ کھلاڑی ایشیاء کپ اور دورہ آسٹریلیا کے ڈیلی الاؤنس نہ ملنے کا شکوہ کرتے نظر آئے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کراچی میں نشان حیدر ہاکی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا، جس سے طویل عرصے بعد ہاکی کلب کی روشنیاں بحال ہوئیں، سب سے بڑی بات یہ تھی کہ  اس ایونٹ میں نو غیر ملکی گول کیپرز بھی ایکشن میں نظر آئے۔

سابق اولمپینئز کی تنقید 

دوسری جانب سابق اولمپیئنز بدستور فیڈریشن پر تنقید کے نشتر چلاتے رہے، جس اولمپیئن کو کوئی عہدہ مل جاتا تو وہ فیڈریشن کے گن گاتا نظر آتا اور جب عہدے سے اتارا جاتا تو فیڈریشن پر تنقید کرتا نظر آتا۔

2018 میں پاکستان ہاکی ٹیم کو کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز اور ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹس میں شرکت کرنی ہے، لیکن اگر فیڈریشن حکام بار بار پالیسی بدلتے رہے تو نئے سال میں بھی چہرے تو ضرور بدلیں گے لیکن نتائج شاید وہی رہیں گے۔