Time 27 دسمبر ، 2017
پاکستان

بے نظیرکوکیوں ماراگیا؟

سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کب قتل ہوئیں یہ سوال اس سوال کےمقابلے میں زیادہ اہم ہے کہ انھیں کس نے مارا؟ غالباً وہ ایسی طاقتور ترین سیاسی رہنما تھیں جنھوں نےقومی اور بین الااقوامی سطح پر لبرل اور ترقی یافتہ لوگوں کی نمائندگی کی۔ 

اگرچہ دس سال قبل انھیں 27دسمبر2007کو شہید کردیاگیا لیکن 10اپریل 1986 کےبعدسے جب وہ پاکستان واپس پہنچی توحکمران طبقے اور شدت پسند ذہنیت نے انھیں کبھی قبول نہیں کیا۔ اب لبرل اور ترقی پسند سیاست کیلئے جگہ کم ہوچکی ہے اور بلاول بھٹو کیلئے اپنی ماں اور دادا سے زیادہ مشکل حالات ہیں۔ ان کا قتل اب راز ہی رہے گا جو حل ہونےکا امکان نہیں ہے، ہم ایک جواب تلاش کرسکتے ہیں کہ وہ اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکیلئے ’خطرہ‘ کیوں بنیں۔ 

10اپریل 1986کو طویل جلا وطنی ختم کرکےجب وہ لاہورمیں واپس پاکستان آئیں تو انھوں نے پاکستانی سیاست میں طوفان برپا کردیا اور کبھی مُڑکرنہیں دیکھا۔ ان کےغیرمثالی استقبال نےاس وقت کےفوجی حکمران مرحوم ضیاءالحق کیلئے خطرہ پیدا کردیا۔

21سال بعد جب وہ دوبارہ 18اکتوبر2007کو اپنی دوسری جلاوطنی ختم کرکے پاکستان پہنچی تو وہ ایک بار پھر فوجی آمرجنرل (ر) پرویز مشرف کیلئے خطرہ بن گئیں۔ 

1986 میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بے نظیر کوواپس آنےکی اجازت دی تو جنرل ضیاءکے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے کیونکہ جنرل صاحب جونیجو کوسندھ سے ایک مقصد کےتحت لائےتھے کہ وہ سندھیوں کے جذبات ٹھنڈےکریں، وہ لوگ بھٹو کی پھانسی پرغصے میں تھےاور پنجاب کی زیرقیادت اسٹیبلشمنٹ کوذمہ دار سمجھتے تھے۔ 

بی بی کی واپسی نے لوگوں کے دلوں میں ان کے والد کی یاد تازہ کردی، یہ ایسی چیز تھی جو ضیاء نہیں چاہتے تھے۔ ضیاءکے چند سابق ساتھیوں نے انکشاف کیا کہ انھیں خوف تھا کہ بی بی کی واپسی سیاسی جماعتوں کی بحالی کی جانب ایک قدم ہوگا اور پی پی پی انتخابات میں کامیاب ہوجائےگی۔ بی بی کو ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کے دوران بہت اچھا رسپانس ملا۔ 

1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے باوجود وہ سیاسی جماعتوں بالخصوص پی پی پی کوتوڑ نہ سکے۔ لہٰذا ضیاء اور ان کی ٹیم نے جوابی منصوے پر کام شروع کیا۔ 

28مئی 1988 کوجب جنرل ضیانے جونیجو کی حکومت کو برطرف کیااور اسمبلیوں کو تحلیل کردیا تو انھوں نے انتخابات کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے برعکس ان کےدائیں بازوکے چند دوستوں جن میں کچھ میڈیا کے لوگ بھی شامل تھے، انھوں نے انھیں شریعت نافذ کرنےکامشورہ دیا، یہ ایسی چیز تھی جو وہ پہلے کرچکے تھے۔ 

1988 کےبعد جب انھوں نے طلبہ یونینز پر پابندی عائد کی اور انھیں بحال کرنے سے انکارکیا تو سابقہ اتحادی جماعت اسلامی کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ پی پی پی کو کاؤنٹرکرنےکی کوشش میں انھوں نے سندھ میں نسلی سیاست کی حوصلہ افزائی کی اور بے نظیر کیلئےمزید مشکلات پیدا کرنےکیلئے دیہی اور شہری سندھ کے درمیان مزید فاصلے پیدا کیے۔ ایک اور مسئلہ جو بے نظیرکیلئے پیچیدہ بنارہا اور جس سےروایتی مائنڈ سیٹ نے فائدہ اٹھا وہ ایک ’خاتون‘ کا اسلامی ملک کاسربراہ بنناتھا۔ 

اس مسئلے پر کچھ مذہبی علماء کوفتویٰ جاری کرنےکیلئےاستعمال کیاگیااورکچھ جما عتیں بھی استعمال ہوئیں۔ سا بق آئی ایس آئی چیف مرحوم لیفٹیننٹ جنرل حمیدگل سے ایک بار ایک انٹرویو میں میں نے پوچھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کوکیوں قبول نہیں تھیں۔ انھوں کہاکہ ’’ فوج میں ایک عام تاثر تھاکہ وہ ان جنرلز سےانتقام لے سکتی تھیں جنھوں نے ان کے والد کی پھانسی میں کردار ادا کیاتھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگ انھیں بطور وزیرِاعظم قبول کرنےکیلئےتیار نہیں تھے۔‘‘ 

حمیدگل نے خود یہ تسلیم کیا کہ بی بی نے اپنے کام اور سوچ سے انھیں غلط ثابت کیا، انھوں نے بی بی کو دوتہائی اکثریت لینے سے روکنےکیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنانے پر افسوس کااظہار بھی کیا لیکن دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ’خاتون کوحکومت کاسربراہ‘ قبول کرنے کے خلاف تھا۔ آئی جےآئی بنانے کاخیال میرا تھا اور اس کا مقصد بی بی کی غیرمثالی مقبولیت کی رپورٹس ملنے کے بعد اُن کی حمایت کوکم کرناتھا۔ 

جب جنرل ضیاءنے 28مئی 1988کواپنے منتخب کردہ جونیجو کو برطرف کیا اور اسمبلیاں تحلیل کیں تو وہ بڑےواضح تھےکہ وہ بے نظیرکوکامیاب نہیں ہونےدیں گے۔ 

17اگست 1988 کو پُراسرار طورپرایک طیارہ حادثہ میں ضیاء کی موت کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر)اسلم بیگ کے پاس مارشل لاء نافذ کرنےکا موقع تھا لیکن اتفاق اس بات پرہوا کہ 90روز میں انتخابات کروا ئے جائیں۔ دیوار پرلکھا ہواتھا، اور بمشکل ہی کوئی ایسا ہو جس نے پی پی پی کی فتح کے بارے میں پیش گوئی نہ کی ہو۔ لیکن انھیں کبھی قبول نہیں کیاگیا اور ان کی بطوروزیراعظم نامزدگی میں دوہفتےلگے، اس دوران انھیں مخصوص شرائط قبول کرنےپر’مجبور‘ کیاگیا۔ 

حتیٰ کہ سمجھوتے کے بعد وزیراعظم بننےپربھی انھیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ ایک سال کےدوران 1989میں عدم اعتماد کے ووٹ ذریعے انھیں ہٹانےکےلیے ایک سازش رچی گئی۔ ان کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے انکشاف ہوتا ہے کہ انٹلیجنس رپورٹس نے 1990کےانتخابات میں دوبارہ پی پی پی کی فتح کی پیش گوئی کی تھی۔ 

لہٰذا ایک بار پھر انھیں روکنے کیلئےاسٹیبلشمنٹ نےمشترکہ اپوزیشن پارٹی اتحاد کی حمایت کی اور مشہور مہران بینک اسکینڈل منظرعام پرآ گیا ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 1990کے انتخابا ت میں دھاندلی ثابت ہونےکےکئی سال بعد اور بے نظیر بھٹو کو شکست دینےکیلئے اپوزیشن رہنماؤں میں وہ رقم تقسیم کی گئی۔ 

لیکن حتیٰ کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھی مشکلات کاشکار ہوگئی اور بالآخر 1993 میں صرف 28دن بعد ہی برطرف کردی گئی۔ حتیٰ کہ جب سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کوبحال کردیا تو غلام اسحاق خان نے انھیں قبول کرنےسےانکار کردیااور وحید کاکڑ فارمولا لایاگیاجس کے تحت تازہ انتخابات کرائے گئے اور غلام اسحاق خان نے استعفیٰ دےدیا۔ 

بے نظیردوبارہ انتخابات جیت گئیں لیکن اس وقت نواز شریف نے پی ایم ایل(ن) کوطاقتور اپوزیشن بنالیا اورپنجاب میں اپنی پوزیشن مضبوط کرلی۔ اس وقت بے نظیرکی جانب سے اپنے آدمی مرحوم سردارفاروق لغاری کوصدربنا نے کے باوجود پوشیدہ طاقتوں نے ان کے بھائی میرمرتضیٰ بھٹوکواستعمال کیا، انھوں نے 1993 کےانتخابات سے قبل ہی اچانک واپسی کااعلان کردیا۔ اس بار ’بھٹوکاگھر‘ تقسیم ہوچکاتھا اور میرکےذریعے کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا، بے نظیر کیلئے مشکلات بڑھ گئیں کیونکہ انھیں مرتضیٰ کاسامنا کرنے میں مشکل کاسامناتھا۔ 

وزیرِاعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر قیادت ان کی سندھ حکومت بھٹوکےبیٹےکی عزت کی وجہ سے زیادہ کچھ نہ کرسکی۔ تین سال کے اندر ہی ان کے لیے نہایت شرمناک حالات بن گئے جب 20 ستمبر1996کو ان کااپنا بھائی انتہائی متنازع ‘مقابلے’ میں مارا گیا۔ 

بے نظیر حیران تھیں کیونکہ یہ ان کے احکاما ت تھے کہ مرتضیٰ کو چھونا بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے ساتھ مصالحت کی کوشش کررہی تھیں اور وہ کسی معاہدے پر پہنچنےکےبہت قریب تھے۔ ان کی حکومت کو برطرف کردیاگیا اور ان کے خاوند آصف علی زرداری کوایک مقدمے میں گرفتارکرلیاگیا۔ 

نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ اس بار دوتہائی اکثریت کے ساتھ اور پی پی پی کی سیٹیں کم ہوکر صرف 18رہ گئیں، اس کے بارے میں سب کاخیال ہے کہ یہ ’سازباز‘کے ساتھ بی بی کو سندھ تک محدود کرنےکیلئےکیاگیا۔ 

12 اکتوبر1999 کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نوازشریف کی حکومت برطرف کرنےکےبعد بے نظیرنےایک بیان جاری کیا، اگرچہ انھوں نے حکومت کی طرفی کی مذمت نہیں کی لیکن فوری انتخابات کامطالبہ کیاتھا۔ مشرف کے منصوبے اور ہی تھےاور انھوں نے واضح کردیا کہ وہ شریف اور بی بی کو سیاست میں واپسی کی اجازت نہیں دیں گے۔ 

جب انھوں نے شریف اور ان کی فیملی کو 2000میں ایک معاہدے کےذریعے جلاوطن کیا تو ان کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی 2002 کےانتخابات میں بی بی کی نااہلی کو یقینی بنایا اور ان کے منتخب کردہ الیکشن کمیشن نے انھیں نااہل قراردےدیا۔ 

پی پی پی واحد بڑی جماعت بن کر ابھری اور حکومت بنانے کے قریب ہی تھی کہ مشرف نے پی پی پی کو تقسیم کردیا اور پی پی پی (پیٹریاٹ) بنادی۔ بی بی اور نواز شریف کی برطرفی نے دونوں کوایک دوسرے کے قریب کردیا اورجلد ہی دونو ں کو احساس ہوا اور انھوں نے تسلیم کیاکہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے دونوں کوایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ 

2006 میں تاریخی چارٹرآف ڈیموکریسی تک پہنچنے میں چار سال لگے۔ چارٹرآف ڈیموکریسی ان طاقتوں کیلئے ایک بڑا نقصان تھا جو کئی سالوں سے نواز شریف کو بے نظیرکے خلاف استعمال کررہی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ این آراو کے باوجود بے نظیرنے مشرف کا مشورہ ماننے سے انکار کردیا کہ وہ انتخابا ت سے پہلے واپس نہ آئیں۔ انھوں نے این آراو کو توڑ دیا اور 18 اکتوبر 2007کو واپس آگئیں اور کراچی میں ان کے جلسے پر دو خودکش حملے انھیں مارنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔ 

شریف اور بی بی کے درمیان سمجھوتا سیاسی قوتوں کی بڑی فتح تھی کیونکہ انٹلیجنس رپورٹس میں 2007کے انتخابات میں پی پی پی کی فتح کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس بار انھیں جسمانی طورپر ہی ختم کردیاگیا اور اس وقت کےبعد پی پی پی دوبارہ سرنہ اٹھا سکی، اب ان کی پارٹی ان کی 10ویں برسی منارہی ہے اور ان کا بیٹا بلاول بھٹو ان کی پیروی کی کوشش کررہاہے۔ 

ٹی ٹی پی رہنما بیت اللہ محسود کے انکار کےباوجود انھیں طالبان یاالقاعدہ کےکمانڈرنے شہید کیا ہوگا۔ 1993 میں انھیں اس وقت مارنے کی کوشش کی گئی تھی جب ایک بم بلاول ہائوس کے قریب نصب کیاگیاتھا، حقیقت یہ ہی ہے کہ شدت پسند ذہنیت نے انھیں کبھی قبول نہیں کیا۔ سیاسی جنگ اب مرکز سےدائیں جانب یا دونوں کےمابین ہےاور درمیان میں دو سخت گیر مذہبی جماعتیں بھی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔

سینئر صحافی مظہر عباس کی یہ تحریر 27 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :