28 دسمبر ، 2017
مشکل میں گرفتار لوگوں کو تنگ کرنا مردوں کاشیوہ نہیں مگر جب چوہدری نثار علی مردانہ وار اور وفاقی وزرا خفیہ طور پر ایسا کر رہے ہیں تو پھر میں کیوں نہ کھلے عام نواز شریف سے اختلاف کا اظہار کروں؟ وہ کون سا اقتدار میں ہیں کہ میرا کچھ کرلیں گے۔ موقع اچھا ہے اس لیے دل میں ان کے خلاف جو جو کچھ ہے وہ سارا دُکھڑا سامنے لاؤں گا۔ کچھ تو میرے ساتھ بیتی ہے اور کچھ فیشن بھی ہے کہ نواز شریف سے کھلے عام اختلاف کیا جائے!
نواز شریف صاحب! آپ کہتے ہیں کہ آپ نظریہ ہیں، آپ تحریک عدل چلانا چاہتے ہیں، ووٹ کا تقدس بحال کرنا چاہتے ہیں، کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیراعظم کو چند افراد کی مرضی سے نکالے جانے کو روکنا چاہتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ آخری دم تک لڑیں گے مگر یہ سب کچھ کہنے کے بعد جب آپ شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار بناتے ہیں تو آپ اپنے ہی نظریے سے انحراف کرتے ہیں کیونکہ شہباز شریف تو کھلے عام سب کے ساتھ مل کر چلنے اور مفاہمت کی پالیسی کا اعلان کرتے ہیں۔ تو میاں صاحب اسے آپ کا نظریے پر ایمان کہیں یا پھر آپ کا انتخاب، درست نہیں۔ یہ تو کھلا تضاد ہے.....
نواز شریف صاحب! چونکہ ہر کوئی آپ سے سوال پوچھ رہا ہے، اعتراض کر رہا ہے، کئی زبان دراز تو آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈال رہے ہیں، ایسے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے آج کل جو مزاحمتی بیانیہ اختیار کیا ہوا ہے، کیا یہ درست ہے یا وہ مصالحانہ بیانیہ جو آپ نے اقتدار میں اختیار کیا ہوا تھا؟ ظاہر ہے آپ جواب دیں گے کہ مزاحمتی بیانیہ درست ہے تو میرا سوال ہے کہ اگر یہی بیانیہ اختیار کرنا تھا تو مشاہد اللہ خان کو پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنے پر کیوں نکالا؟ اگر آپ ڈان لیکس کو ایشو بنانے کے خلاف تھے تو انکوائری کمیٹی کیوں بنائی؟ پرویز رشید کو کابینہ سے کیوں نکالا؟ اگر آپ کو پاناما بینچ پر اعتراض تھا تو اسے مانا کیوں؟ اگر جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے ارکان شامل تھے اور آپ کو اس کی جانبداری کا ڈر تھا تو اس کا بائیکاٹ کیوں نہ کیا؟ اگر آج آپ کی ججوں پر تنقید حق بجانب ہے تو نہال ہاشمی کی اس وقت تنقید کرنے پر گوشمالی کیوں کی گئی؟
نواز شریف صاحب! آپ کا کہنا بالکل حق بجانب کہ جنرل مشرف کو آئین سبوتاژ کرنے پر سزا کیوں نہیں ملی؟ ایسی کوئی عدالت ابھی تک بنی نہیں۔ یہ سب درست مگر میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے جنرل مشرف کو باہر جانے کیوں دیا؟ کھلے عام اس کے خلاف بولے کیوں نہیں؟ جب وہ ایک ہسپتال میں داخل ہوگئے تھے، آپ نے مصلحت سے کام کیوں لیا؟ اور کبھی مصلحت اور کبھی اصول سے کام نہیں چلتا۔ ہمیشہ اصولوں پر کاربند رہیں یا پھر ہمیشہ مصلحت سے کام لیں۔
میاں نواز شریف صاحب!آپ جنرل راحیل شریف کے زمانے میں تو آئی ایس پی آر کے بڑے بڑے سخت ٹوئیٹس برداشت کرلیتے تھے۔ جنرل باجوہ کے دور میں ایک ٹوئیٹ پر اتنا سخت ردعمل کیوں دیا؟ نتیجے میں لائن ہی کٹ گئی۔ ایک وقت تھا کہ آپ جنرل راحیل شریف کو اپنے برابر بٹھاتے تھے۔ ایک ادارے کےدورے پر تو آپ نے انہیں کرسی صدارت پر بھی بٹھا دیا اور خود ماتحت کرسی پر بیٹھ گئے، مگر ایسا کیا ہوا کہ جنرل باجوہ کے آتے ہی کرسیوں کے درمیان ایک لمبی میز آگئی؟
میاں صاحب! گلے شکووں کا دور ہے تو کیوں نہ آپ سے یہ بھی پوچھ لیا جائے کہ آپ کئی لڑائیاں بہت نیم دلی سے کیوں لڑتے ہیں؟کارگل پر حملے کے آپ خلاف رہے۔ آپ کا خیال تھا کہ یہ پاک-بھارت مذاکرات کو ختم کرنےکے لیے کیا گیا۔ مگر جب آپ اقتدار میں آئے تو آپ نے کارگل پر انکوائری کیوں نہ کروائی؟ حالانکہ آپ بار بار کہتے رہے کہ اقتدار میں آ کر کارگل پر کمیشن بناؤں گا، آخر آپ نے ایسا کیوں نہ کیا؟
میاں نواز شریف صاحب! موقع ملا ہے تو آپ سے یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ خفیہ ذرائع آپ کے بھارتی وزیراعظم مودی سے تعلقات اور سجن جندل سے آپ کی ملاقاتوں کا ذکر کرکے یہ تاثر دیتے رہے کہ آپ کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ ہے۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ بھارت اور وزیراعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو کھول کر بیان کرتے۔ آپ سجن جندل سے اپنے تعلقات پر بھی روشنی ڈالتے۔ آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اب بھی موقع ہے اس موضوع پر شکوک و شبہات کو رفع کریں۔
میاں نواز شریف صاحب! مجھے آپ سے اس لیے بھی اختلاف ہے کہ آپ افغانستان کے بارے میں پر امن پالیسی کے حق میں تھے لیکن آپ اس موضوع کو بند کمروں میں توزیر بحث لاتے رہے، اسے قومی بحث کا موضوع نہ بنایا اور یوں آپ دفاعی بیانیے کے مقابلے میں کوئی 'عوامی بیانیہ' تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ اب بھی موقع ہے آپ ان موضوعات کو عوامی عدالت میں لائیں تاکہ اگلا الیکشن انہی موضوعات پر ہو اور ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے کہ پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہے یا ویلفیئر اسٹیٹ؟
میاں صاحب!کسی سیاستدان کے لیے نااہلی سے بڑی کوئی اور سزا نہیں، مگر اب بھی آپ مصلحت سے کام لے رہے ہیں، آپ کا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ ان رازوں کو افشا کیوں نہیں کرتے؟ آخر کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟
میاں نواز شریف صاحب! میں کھلے عام یہ اعلان کر رہا ہوں کہ میرے آپ سے اختلافات ہیں اور یہ اختلافات اس وقت تک بڑھتے رہیں گے جب تک آپ مشکل میں ہیں۔ جونہی آپ کے حالات میں بہتری آئی میرے آپ کے ساتھ اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ یہی حال میرے ان دوستوں کا ہے جو اُڑے کو تیار بیٹھے ہیں اور آج کل آپ سے اختلاف کا آموختہ دہرا رہے ہیں۔ اختلاف تو اختلاف ہے، جب بھی ہو جائے مشکل میں ہو تو اس کا اظہار بہت آسان ہوتا ہے۔
یہ تحریر 28 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔