30 دسمبر ، 2017
نوازشریف اور عمران خان کی کچھ صفات ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن محسن کشی کے معاملے میں دونوں بالکل ایک جیسے ہیں ۔ طاقت اور اختیار ملنے پر دونوں سب سے پہلے اپنے محسنوں کے گلے پرہاتھ ڈالتے ہیں۔ دونوں کی یہ عادت بھی ایک جیسی ہے کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو وہی ہاتھ اسی بندے یا ادارے کے قدموں تک لے جانے میں بھی دیر نہیں لگاتے، جو پہلے اسکے گریبان میں ڈالے ہوتے ہیں۔
جس گملے میں آج عمران خان کی پرورش ہورہی ہے، خود میاں نوازشریف کی سیاسی پرورش اسی گملے میں ہوئی۔ جس طرح آج عمران خان کو پس چلمن حلقے اپنے مہرے کے طور پر استعمال کررہے ہیں، اسی طرح میاں نوازشریف ایک لمبے عرصے تک ان کے مہرے کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔
جس طرح عمران خان آج لاڈلے ہیں، اسی طرح ایک لمبے عرصے تک میاں صاحب بھی لاڈلے رہے ۔ مکافات عمل کے قانون کے تحت مجھے پورا یقین ہے کہ خان صاحب اسی طرح اپنے ان محسن اداروں کے گلے میں ہاتھ ڈالیں گے جس طرح میاں صاحب نے موقع ملتے ہی ڈال دیا لیکن میاں نوازشریف یہ کام وزیراعظم بننے کے بعد کرتے رہے جب کہ عمران خان صاحب کو یہ سنت نوازشریف ، وزیراعظم بنے بغیر تازہ کرنا ہوگی کیوں کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں اور نہ کوئی انہیں بنانے کا رسک لینے کو تیار ہے ۔
بنیادی طور پر میاں نوازشریف کے تین محسن تھے ۔ دفاعی ادارے ، عدلیہ اور عرب دوست۔ ان کو اختیار ملا تو انہوں نے ان سب سے جان چھڑانے کی کوشش کی اور کسی نہ کسی شکل میں ان سب کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا۔ یا پھر وہ تابعداری ترک کی جو وہ لیڈر بننے اور اختیار ملنے سے قبل کیا کرتے تھے۔
چنانچہ پہلے دو محسنوں نے ان کو اقتدار سے باہر نکال کر اٹک قلعے پہنچا دیا۔لیکن تب تک چونکہ تیسرے محسن یعنی سعودی عرب کو ابھی آنکھیں دکھانے کا موقع نہیں آیا تھا اس لئے وہ مدد کو آیا اور انہیں اٹک قلعے سے نکال کر جدہ کے سرور پیلس پہنچا دیا۔
بے نظیر بھٹو کے این آر او کے نتیجے میں میاں صاحب کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ انہیں ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ ملی۔ وہ ہاتھ جو انہوں نے کسی زمانے میں عدلیہ کے گریبان میں ڈالے تھے، اس کے قدموں میں لے گئے۔
لیکن دفاعی اداروں سے متعلق دل کی کدورت کو پوری طرح رفع نہ کرسکے ۔چنانچہ انہوں نے قدموں میں لانے کیلئے عمران خان کے سیاسی غبارے میں ہوا ڈالنے کا عمل شروع کیا۔ ان کی جماعت سے اور دیگر جماعتوں سے لوگوں کو نکال کر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا۔ میڈیا کو ٹاسک سونپ دیا گیا کہ وہ عمران خان کو مسیحا ثابت کرے ۔ خودعمران خان کو بھی یقین دلایا گیا تھا کہ وہ اگلے وزیراعظم ہوں گے۔
جب خان صاحب ا سٹیج سے گرنے کے حادثے میں بے ہوش ہوکر اسپتال پہنچ رہے تھے تو اپنے آپ کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھ رہے تھے لیکن اس دوران شہباز شریف کی نصیحتیں کام آئیں اور ایک طاقتور ادارے کے سربراہ کے ایک مسلم لیگی عزیز کو درمیان میں ڈال کر گریبان سے ہاتھ نکال کر قدموں میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان سے وعدے وعید ہوئے ۔ یہ یقین دلایا گیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ماضی کو دفن کر دیا جائیگا اور پرویز مشرف کو نہیں چھیڑا جائیگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
چنانچہ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کے حق میں جس پولیٹیکل مینجمنٹ کا منصوبہ بنایا گیا تھا، اس پر عمل درآمد روک کر پنجاب میں میدان کو شریفوں کیلئے اوپن چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب حسب عادت ان وعدوں کو بھلا کر جنرل مشرف کے دور کا حساب برابر کرنے لگ گئے ۔ اس پر وہ لوگ غصے میں آئے جن سے اقتدار سے قبل وعدے کئے گئے تھے چنانچہ ان کے خلاف دھرنوں کی صورت میں دوبارہ عمران خان اور طاہرالقادری کو میدان میں اتارا گیا۔
اب کے بار انہوں نے ایک نئی پالیسی اپنائی اور وہ یہ کہ بظاہر وہ گریبان میں لے جائے گئے ہاتھ قدموں میں تو لے آئے لیکن درون خانہ پھر بھی گاہے بگاہے اسے دوبارہ گریبان تک لے جانے کی کوشش کرتے رہے ۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ان لوگوں کے ناپسندیدہ ترین انسان بن گئے جن کے کسی زمانے میں پسندیدہ ترین سیاستدان تھے ۔
البتہ اندرونی محاذ پر اپنے آپ کو مقبول بنانے کی کوشش میں اب کے بار وہ اپنے ایک اور محسن کو ناراض کربیٹھے اور وہ تھے عرب دوست ۔ چونکہ عرب دوستوں نے نوازشریف کو پرویز مشرف کے چنگل سے نکالا تھا ، اس لئے وہ پرویز مشرف کے خلاف ان کے اقدام پر خوش نہیں تھا لیکن اسے ناراض کرکے میاں صاحب نے پرویز مشرف کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا۔ تاہم جلتی پر تیل کا کام یمن کے معاملے نے کیا ۔
میاں صاحب نے ابتداء میں عرب دوستوں کو تاثر دیا تھا کہ وہ ان کے حسب منشا ساتھ دیں گے لیکن جب وقت آیا تو داخلی دباؤ کی وجہ سے فوج بھیجی اور نہ پوری طرح ساتھ دیا ۔ چنانچہ اب کے بار جب میاں نوازشریف کو داخلی محاذ پر اپنے دو سابقہ محسنوں اور موجودہ حریفوں کے ہاتھوں مار پڑی تو عرب دوست مدد کو کیا آتے، شاید ان کی رخصتی پر خوش ہوئے۔
دوسری طرف میاں نوازشریف کا بھائی اور پیروکار ہوکر بھی میاں شہباز شریف نے مذکورہ محسنوں سے متعلق رویہ یکسر مختلف رکھا۔ جنرل مشرف سے لے کر جنرل اشفاق پرویز کیانی تک اور جنرل راحیل شریف سے لے کر جنرل قمر باجوہ تک ، کسی کے ساتھ بھی انہوں نے براہ راست چھیڑخانی نہیں کی ۔ اگر کہیں کی بھی تو بھائی سے مجبور ہوکر کی ۔
اسی طرح وہ عدلیہ کے ساتھ پنگابازی کے بھی حق میں نہیں رہے ۔ لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ رہ کر بھی وہ درپردہ وزیرخارجہ کا کردار ادا کرتے رہے ۔
انہوں نے اپنے آپ کو چین کا بھی منظور نظر بنالیا ہے۔ وہ عربوں کو بھی راضی رکھنے کے جتن کرتے رہے اور ترکی کے ساتھ بھی حکومتی تعلق کو انہوں نے ذاتی تعلق میں بدل دیا۔
چنانچہ نوازشریف کی نااہلی کے فوراً بعد سے میاں نوازشریف کو ہر حلقے کی طرف سے پیغام دیا جاتا رہا کہ وہ اگر شہباز شریف کو آگے کرلیں تو نئے سفر کا آغاز ہوسکتا ہے لیکن اپنے اردگرد موجود انقلابی نما خوشامدیوں یا پھر محترمہ مریم نواز کے دباؤ کی وجہ سے میاں صاحب اس پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ انہوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ۔
اس مزاحمت کے نتیجے میں شاید وہ عوامی سطح پر دوبارہ مقبولیت حاصل کررہے ہیں لیکن انہیں یہ بھی احساس ہورہا ہے کہ سابقہ محسنوں اور موجودہ حریفوں کا رویہ یہ رہا تو اپنے ساتھ ساتھ وہ شہبازشریف کو بھی لے ڈوبیں گے ۔ انہیں یہ بھی احساس ہورہا ہے کہ اگر وہ شہباز شریف کو پہلے آگے کرتے تو آج جہانگیر ترین کی طرح عمران خان بھی نااہل ہوچکے ہوتے لیکن جب وہ سخت رویہ رکھیں گے تو نہ صرف تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری جائے گی بلکہ مسلم لیگ(ن) بھی تقسیم ہوگی ۔
چنانچہ انہوں نے بادل ناخواستہ شہباز شریف کو آگے کرنے کا اشارہ دے دیا۔ اسی طرح فریق ثانی کا بھی مخمصہ یہ ہے کہ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ ووٹ کے میدان میں ابھی پنجاب کے اندرپی ٹی آئی ، مسلم لیگ (ن) کا متبادل نہیں بن سکی۔
دوسری طرف امریکا، افغانستان اور ہندوستان کی طرف سے جو چیلنجز درپیش ہیں ،ان کے تناظر میں ملک کے اندر اداروں کا تصادم ملک کیلئے تباہ کن ہوگااور ظاہر ہے ملک کے رکھوالے اس حد تک معاملہ لے جانے کا ریسک نہیں لے سکتے ۔
دوسری طرف ملکی سلامتی کو درپیش مذکورہ چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کو چین، سعودی عرب اور ترکی جیسے دوستوں کا ساتھ درکار ہے اور وہ آصف زرداری کے ساتھ تو خوش ہونگے لیکن عمران خان کے ساتھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی حلقے بامر مجبوری شہباز شریف کی طرف دیکھنے لگے ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کیلئے شہباز شریف نے بھی بڑے جتن کئے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی پنڈی،کبھی لندن ، کبھی بیجنگ تو کبھی ترکی تو کبھی استنبول میں پائے جاتے ہیں ۔ بات بڑی حد تک بن گئی ہے ۔ حدیبیہ سے نجات اور سعودی عرب سے بلاوا اس کی واضح علامات ہیں ۔
میاں نوازشریف نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرکے معاملے کو آگے بڑھانے کا اشارہ دے دیا ہے لیکن حتمی معاملات سعودی عرب میں طے ہوں گے جہاں ترکی کے وزیراعظم بھی پہنچ گئے تھے۔ اگر میاں نوازشریف بھی ان کی اقتداء میں سعودی عرب چلے گئے ( یہ کالم جمعہ کی دوپہر کو تحریر کیا جارہا ہے ) تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بات پکی ہورہی ہے لیکن اگر ان کا بلاوا نہیں آیا تو مطلب یہ ہوگا کہ ابھی کچھ مزید معاملات طے ہونے ہیں ۔
اگر یہ بات بن گئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عمران خان صاحب نے ذہن میں وزارت عظمیٰ کا جو تخیلاتی محل تعمیر کیا ہے ، وہ وقت سے پہلے دھڑام سے گرگیا اور زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر اینٹ سے اینٹ لگانے کے مشن میں لگ کر جو عمارت تعمیر کررہے تھے ،اس میں بھی دراڑیں آجائیں گی ۔
سینئر صحافی سلیم صافی کا کالم 30 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔