Time 11 جنوری ، 2018
پاکستان

2017: ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1764 واقعات، رپورٹ

قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کی لرزہ خیز واردات نے بچوں کو لاحق خطرات پر ایک بار پھر اپنی توجہ مبذول کروادی ہے مگر سوال یہ ہے کے کیا یہ اس نوعیت کا اکلوتا واقعہ ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔

سال 2017:

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی 2017 کے ششماہی رپورٹ کے اعدادو شمار کےمطابق جنوری سے جون 2017 تک ملک بھر سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1764 واقعات رپورٹ ہوئے  جس میں 1067 واقعات میں لڑکیوں جب کہ 697 واقعات میں لڑکوں کو نشانہ بنایا گیا، اس میں 10 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 438 تھی ۔

جنسی تشدد کے ان واقعات کو صوبائی بنیاد وں پر دیکھا جائے تو پنجاب 1089 واقعات کے ساتھ سرفہرست رہا جس کے بعد سندھ میں 490، بلوچستان میں 76، خیبرپختونخوا میں 42 جب کہ آزاد کشمیر سے بچوں سے جنسی زیادتی کے 9 افسوس ناک واقعات منظر عام پر آئے۔

ایسے میں صرف قصور کی بعد کی جائے تو اس شہر سے سال 2017کے ابتدائی 6 ماہ میں 10 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا جن کی عمریں 5 سے 10 سال کے درمیان تھیں۔

سال 2016 کی صورتحال :

سال 2016 کی رپورٹ ملکی صورتحال کی جو تصویر پیش کرتی ہے اس کے مطابق جنوری سے دسمبر 2016 تک ملک بھر سے بچوں سے زیادتی کے 4139 واقعات رپورٹ ہوئے جو نہ صرف سال 2015 کے مقابلے میں 10 فیصد زیاد ہ تھے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی تھا کے کے ہر روز 11 بچے اس ظلم اوربربریت کا نشانہ بنے۔

ان واقعات میں 58 فیصد میں بچیوں جب کہ 42 فیصد میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب کہ کل واقعات میں سے 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

سال 2015 کے مقابلے میں بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی 22 فیصد اضافہ بھی ہوا ہےجو کافی تشویش ناک ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ زیادتی کے 43 فیصد کیسز میں جان پہچان یا قریبی رشہ دار ملوث تھے۔

اُس سال صوبائی سطح پر سب سے زیادہ واقعات یعنی 2600 سے زائد(2676) پنجاب سے رپورٹ ہوئے جو کل واقعات کا 65 فیصد بنتا ہے جس کے بعد سندھ سے 987 کیسز، بلوچستان سے 166، اسلام آباد سے 156، خیبر پختونخوا سے 141، آزاد جموں کشمیر سے 9 جب کہ گلگت بلتستان سے 4 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سال 2016 میں زیادتی کے واقعات میں سے 45 فیصد صرف 10 اضلاع سے رپورٹ ہوئے جس میں راولپنڈی سرفہرست رہا جہاں سے 269 کیسز منظر عام پر آئے جس کے بعد لاہور میں 266کیسز، شیخوپورہ 224، مظفرگڑھ 211، پاکپتن 169 ، اسلام آباد 156، فیصل آباد 154، وہاڑی 151، خیرپور142، جب کہ قصور 141 واقعات کے ساتھ بچوں کے لیے 10 خطرناک اضلاع کی فہرست میں نظر آیا۔

بچوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

بچوں کی حفاظت کرنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے لیکن بطور ماں باپ یہ آپ کا فرض ہے کے آپ اپنے بچے کو ان تمام حفاظتی اقدامات سے روشناس کروائیں جس کے ذریعے وہ اپنی حفاظت کرسکتا ہے۔

اس میں سب سے اہم بچوں کو ان کی جسم کے ذاتی حصوں کے بارے میں بتائیں جس تک کسی کو رسائی کا حق حاصل نہیں سوائے ماں باپ اور ان کی موجودگی میں ڈاکٹرز کو۔

چونکے یہ دیکھا گیا ہے کے بچوں سے زیادتی میں قریبی رشتے دار یا ایسے افراد ملوث ہوتے ہیں جن کو بچہ جانتا ہے تو اپنے بچے کو اس بات کی تعلیم دیں کے ماں باپ کو بتائے بغیر وہ کسی کے ساتھ نہ جائے۔

بچے کی زندگی میں رہنے والے قریبی افراد کے بارےمیں خود بھی جاننے کی کوشش کریں  اور اپنے بچے سے روز مرہ کی سرگرمیوں کی بات کریں۔ بچوں کو مناسب اور غیر مناسب طریقے سے چھوئے جانے کے بارے میں تعلیم دیں۔

بچے کو بتائیں کے اگر کوئی اس کے جسم کے ذاتی حصوں پر ہاتھ لگانے کی کوشش کرے اور ان تمام باتوں کو راز رکھنے کو کہیں تو بچہ یہ تمام باتیں آپ سے کرے۔

بچے کو اعتماد دیں کے اگر کوئی غیر اخلاقی حرکت کرے اور کسی کو بتانے کی صورت میں نقصان پہنچانے کا کہے تو اس سے ڈرے بغیر ماں باپ یا اپنے بڑوں سے شیئر کرے۔

بچے کے دوست بنیں اور یہ بتائیں کے ماں باپ سے کوئی رازداری نہیں اور کوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں کو بھروسے مند افراد کے علاوہ کسی کے ساتھ اکیلا مت چھوڑیں۔

بچے کو بتائیں کے اگر کوئی مفت چیز دینے کی کوشش کرے تو اس سے ہرگز نہ لے۔نہ اس کے ساتھ کہیں جائے۔

مزید خبریں :