منوڑہ ایک دہائی میں

 نائزہ خان کا ایک فن پارہ—۔

لندن میں مقیم پاکستانی فنکارہ نائزہ خان کے جزیرہ نما منوڑہ پر بنائے گئے فن پارے ایک مختلف قطعہ زمین اور اس کی پیچیدگیوں کے درمیان تسلسل اور بےربطی کو دریافت کرتے ہیں۔

'سیٹ ان اے مومنٹ یٹ اسٹل موونگ' (Set in a moment yet still moving) کے نام سے جاری نمائش میں رکھے گئے یہ فن پارے باقاعدہ طور پر تو ایک مقام کے لوگوں اور وقت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں، مگر ان میں فنکارہ کی خلا کے بارے میں سوچ کی گونج اس سے کئی زیادہ نظر آتی ہے۔

نائزہ خان کے کام میں دو چیزیں 'وقت اور خلا' بہت واضح ہیں، جو نہ صرف ان کی پینٹنگز بلکہ لکھائی میں بھی نمایاں ہیں، جو انھوں نے منوڑہ کے لیے اپنے خیالات کے اظہار میں استعمال کی ہیں۔

بلاشبہ منوڑہ پر فنکارہ کے یہ شاہکار کوئی پہلی بار نہیں ہیں، وہ 10 برس سے اسی موضوع پر کام کر رہی ہیں اور نمائش کا عنوان صاف بیان کر رہا ہے کہ اتنے عرصے کے دوران فنکارہ میں ذاتی طور پر اور کراچی کی اہم اور تاریخی بیس منوڑہ میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی جا رہی ہے۔

فنکارہ نے کراچی اور منوڑہ کو بیان کرنے کے لیے جس لکھائی کا استعمال کیا ہے، وہ کسی نقشے کی مانند ہے، مگر آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ اُن کا یہ جغرافیائی اندازِ بیان کسی نقشے سے بہت بڑھ کر ہے اور اس کے پیچھے ایک پیغام پنہاں ہے، جو وہ خود بھی مکمل طور پر ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔

اُنیسویں صدی کی شروعات میں سندھ میں داخل ہونے والے انگریزوں نے اپنی داستانِ سفر جس معنی خیز لکھائی میں کی، نائزہ خان نے بھی اُسی ٹیکسٹ سے متاثر ہو کر دیکھنے والوں کے لیے اپنے کام کو سمجھنا ممکن بنایا ہے۔

نائزہ خان نے فن کی دُنیا میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، کوئل گیلری کی مالک نور جہاں بلگرامی نے بھی فنکارہ کے کام پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ نائزہ خان کام کے اعتبار سے بہت ہی تجربہ کار اور باصلاحیت آرٹسٹ ہیں، جنہوں نے اپنے فن پاروں سے قابلِ توجہ معاملات پر کام کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نائزہ کے فن پاروں میں جزیروں سے دکھنے والی افق کی لکیر اور وسعت نگاہ بھی آرٹ کا ذوق رکھنے والوں کو ضرور نظر آئے گی۔

نائزہ انڈس ویلی اسکول آف آرٹس میں 15 برس تک فن پڑھا چکی ہیں اور اب کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت استاد فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

بطور فنکارہ نائزہ خان کافی عرصے سے منوڑہ پر کام کر رہی ہیں اور ان کے کام کا بیشتر حصہ وہاں پر اقلیت میں موجود کمیونٹیز سے تعلق پر منحصر ہے۔

انہوں نے آئل پینٹس اور واٹر کلرز کے امتزاج سے اقلیتی کمیونٹیز، گردواروں اور تاریخی مقامات کو بخوبی اجاگر کیا ہے، دوسری جانب قطعہ زمین سے بھی ان کا ایک گہرا تعلق ہے اور وقت کا عنصر بھی ان کے فن پاروں میں نہایت اہم ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ منوڑہ کی صورت حال کو بہتر بنانے کے حوالے سے نائزہ خان کے خیالات بھی بدل گئے ہیں اور انہیں یہ اندازہ ہوا کہ مشاہدے کے نتیجے میں تخلیق پانے والے یہ فن پارے صرف نقش و نگار اور چیزیں ہی نہیں، بلکہ خاص مقام سے جنم لینے والےخیالات ہیں، جس میں ان کی 10 برس کی سوچ شامل ہے اور جس کے دوسرے حصے پر بھی کام جاری ہے۔

28 دسمبر سے جاری نائزہ خان کے فن پاروں کی یہ نمائش آج (11 جنوری) اختتام پذیر ہوگی۔

مزید خبریں :