11 جنوری ، 2018
گذشتہ سال بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا خوب چرچا رہا، عموماً معاشی امور مہنگائی یا روپے کی قدر میں کمی تک عوام اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے لیکن 11 اکتوبر کو بڑھتے ہوئے تجارتی و کرنٹ اکاونٹ خسارے پر آرمی چیف کے تبصرے نے معاملے کو مزید نمایاں کردیا۔
حکومت کو سپاہ سالار افواج پاکستان سے پہلے ہی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو واقعی پاکستان کیلیے ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال انتہائی تشویشناک سمت مضن بڑھ رہی ہے۔ ملکی ایکسپورٹ جمود کا شکار جبکہ امپورٹ تیز تر اضافے سے بڑھ رہی ہے۔
صرف جولائی تا نومبر 2017 میں تجارتی خسارہ 29 فیصد اضافے کے بعد پہلی مرتبہ 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ صرف نومبر کے دوران تجارتی خسارہ تین ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے۔
اس دوران ملک کی ایکسپورٹ کے مقابلے امپورٹس دگنی رہیں۔ جولائی تا نومبر ملک کی ایکسپورٹ تقریبا 10 فیصد جبکہ امپورٹ 21 فیصد سے زائد سے بڑھی ہے۔
آرمی چیف کے بیان کے چند دنوں بعد حکومت نے امپورٹ کی حوصلہ شکنی کیلئے کچھ احکامات جاری کیے جس کے اثرات کا اندازہ لگایا جانا باقی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ڈیوٹیز میں اضافے سمیت مختلف اقدامات پہلے لیے جاتے تو حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا۔
کاروباری رہنماوں کے مطابق سیاسی کشیدگی اور پاناما کیس نے حکومت اور بیوروکریسی کی معیشت اور امور حکومت پر توجہ چھین لی ہے۔
ایک دوسری بات یہ کہ بھاری قرضوں کی ادائیگی کے تناظر میں ایکسپورٹ کا بڑھنا بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے وزارت تجارت اور ٹی ڈیپ جیسے اداروں کو سوتے سے بیدار کرنا ہو گا۔ ایکسپورٹ ایوارڈز پیسے دے کر نہیں بلکہ اصل میں کارکردگی والے ایکسپورٹرز کو دینا ہوگا۔
اس کے علاوہ برانڈنگ کے ذریعے سے ایکسپورٹ بڑھانے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی کیوں کہ عالمی منڈی میں نان برانڈڈ اشیاء کی قیمت ہمیشہ بہت کم ملتی ہے۔
حکومتیں ماضی میں ہمیشہ ایکسپورٹرز کو مراعاتی پیکیجز میں تمام ایکسپورٹرز میں برانڈز پر پیسہ خرچ کرنے والوں اور نان برانڈڈ ایکسپورٹرز کو یکسانیت کو ٹریٹ کرتی آئی ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافے کیلئے برانڈز پر پیسہ اور محنت لگانے والے اچھے ایکسپورٹرز کو عام ایکسپورٹرز اے زیادہ مراعات بھی اہم ترین ہیں۔
امپورٹس میں کمی کیلیے بھی بہت سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ امپورٹرز مافیاؤں سے سختی سے نمٹنا، ملکی مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی اور آزادانہ تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کرنا ضروری ہوگی۔
آخر میں یہ کہ سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت پر بھرپور توجہ دینا پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ ہے، حکمرانوں کو یہ زہن نشین کرنا ہوگا۔