اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 85 فیصد تک ٹرین حادثات پھاٹک کے نہ ہونے یا پھاٹک کھلنے اور بند کرنے کے دوران پیش آتے ہیں۔
13 جنوری ، 2018
یہ نومبر 2016 کی بات ہے جب کراچی میں لانڈھی اسٹیشن کے قریب 2 ٹرینوں کے تصادم میں 20 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ کوئی پہلا ٹرین حادثہ نہیں تھا لیکن اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد ہی وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو میڈیا پر یہ کہتے سنا کہ ہمارا ریلوے کا نظام پرانا ضرور ہے لیکن اتنا فرسودہ نہیں کہ ٹرین حادثے معمول بن جائیں۔
وزیر ریلوے کے اس اعتماد اور دعوے نے کچھ ایسی کیفیت طاری کی کہ راقم الحروف نے خواجہ سعد رفیق کی بات کی صداقت کی چھان بین شروع کردی اور یہ معلوم ہوا کہ موصوف کی وزارت کے عرصے کے دوران اب تک 14 بڑے اور درجنوں چھوٹے ٹرین حادثات ہوچکے ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 250 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 'ریلوے کے قدیم نظام' پر وزیر محترم کا اعتماد دیکھ کر دھچکا ضرور لگا۔
ایک روز میری قسمت وزیر ریلوے کے بیان کا عملی تجربہ دکھانے کراچی سے چند کلومیٹر دور جھمپیر ریلوے اسٹیشن لے گئی، جہاں پر تقریباً 2 گھنٹے قیام بھی محکمہ ریلوے کے نظام کی ہی مرہون منت تھا، ہوا کچھ یوں کہ یکم دسمبر 2017 کی ٹھنڈی شب جھمپیر اسٹیشن سے چند کلومیٹر کی دوری پر ایک ٹرین کا انجن فیل ہوگیا جس کی وجہ سے متاثرہ ٹرین کے پیچھے آنے والی ٹرین کو راستے میں ہی قیام کا اشارہ ملا اور ہماری ٹرین اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک کے عین سامنے ٹھہر گئی۔
ٹھنڈ کے باعث اکثر مسافر ٹرین میں بیٹھے رہے لیکن جب انتظار طویل ہوا تو بیشتر مسافر پٹریوں پر جا بیٹھے اور مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگی اور یہی قیاس آرائیاں ہمیں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے تک کھینچ لے گئیں۔
چھوٹے اور پرانے سے اسٹیشن کے ایک کمرے میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر موجود تھے جو زمانہ قدیم میں استعمال کیے جانے والے فون پر کسی سے محوِ گفتگو تھے، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر بدر الدین طبیعتاً نرم اور خوش مزاج تھے، جن سے وقتاً فوقتاً مسافر آکر ٹرین کے چلنے کا سوال کرتے اور بھی وزیر ریلوے کی طرح اعتماد سے مسافروں کو یقین دلاتے کہ ٹرین کا نظام اچھا ہے، کچھ دیر بعد ٹرینیں منزل کی جانب روانہ کردی جائیں گی۔
آخرکار اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی بات نے مجبور کر ہی دیا کہ ان سے پوچھا جائے کہ آخر کیسا نظام ہے کہ ایک ٹرین کے انجن فیل ہونے سے کئی ٹرینوں کو راستے میں روکنا پڑا، اس سوال پر پہلے تو بدرالدین صاحب ٹال مٹول کرتے رہے لیکن جب اصرار کیا گیا تو انہوں نے سامنے ہی رکھے ریلوے کنٹرول سسٹم پر بریفنگ شروع کردی۔
ریلوے سے مسلسل سفر کرتے 4 سال بیت گئے، لیکن کبھی احساس نہ ہوا کہ اسے کنٹرول کرنے کے پیچھے اتنے لوگ کارفرماں ہیں۔ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ کراچی سے لاہور اور راولپنڈی جانے والا ٹرین اَپ ٹریک ہے اور وہاں سے آنے والا ڈاؤن ٹریک۔ جوں ہی کوئی ٹرین ان کی حدود میں داخل ہوگی تو اورنج رنگ کی لائٹیں ان کے سامنے رکھے پینل پر روشن ہوں گی، جس کے بعد اگر وہ چاہیں تو ٹرین کو پلیٹ فارم نمبر ایک سے گزاریں یا پلیٹ فارم نمبر 2 سے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ٹرین راستے میں کہیں کھڑی ہوجائے تو پیچھے سے آنے والی ٹرین کو خودکار نظام کے تحت سگنل کے ذریعے پتہ چل جائے گا کہ آگے خطرہ موجود ہے جس کی نشاندہی سرخ رنگ کے سگنل سے ہوگی، اگر ٹرین ڈرائیور سرخ سگنل کو نظر انداز کرتا ہے تو حادثے کے خدشات یقینی ہوجاتے ہیں۔
اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر بدرالدین کے مطابق اگر اسٹیشن کے کسی پلیٹ فارم پر پہلے سے کوئی ٹرین موجود ہے تو اس صورت میں پیچھے سے آنے والی ٹرین کو اگر اسٹیشن ماسٹر بھی لانا چاہے تو وہ نہیں لاسکتا، کیوں کہ ریلوے کے خودکار نظام کے تحت ایسی صورت میں اسٹیشن پر ٹھہری ہوئی ٹرین کے ٹریک کے سگنل تب تک سبز نہیں ہوں گے جب تک گاڑی روانہ ہوجائے اور اسٹیشن پر ٹھہری گاڑی کے جاتے ہی پیچھے سے آنے والی ٹرین کو اس ٹریک پر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اگر اسٹیشن ماسٹر پیچھے سے آنے والی گاڑی کو بھی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہونے دیتا ہے تو اس صورت میں ٹرین کو دوسری پٹری پر چلنے کا شارہ ملتا ہے اور پھر پیچھے سے آنے والی ٹرین پلیٹ فارم نمبر 2 یا 3 پر آکر ٹھہرتی ہے۔
ان کی اسی بات نے یہ سوال پوچھنے پر مجبور کیا کہ اگر ٹریک پر ٹھہری ہوئی ٹرین کے پیچھے آنے والی ٹرین کو آگے بڑھنے کے لیے گرین سگنل نہیں ملتا تو لانڈھی اسٹیشن کے قریب حادثہ کیوں رونما ہوا، جس پر معمولی تبسم کے بعد وہ بولے کہ بعض اوقات ہمارے ڈرائیورز حضرات سگنل نظرانداز کر دیتے ہیں اور گنجائش رکھتے ہیں لیکن اگر سگنل سرخ ہو تو ڈرائیوروں کو لازماً گاڑی روک لینی چاہیے تاوقت یہ کہ سبز سگنل روشن نہ مل جائے۔
اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے کنٹرول پینل پر ٹرینوں کے سگنلز کا عملی تجربہ بھی کرکے دکھایا، جوں ہی انہوں نے ٹریک ون کے سگنل آن کیا تو وہاں پہلے سے موجود گاڑی کی وجہ سے سگنل اورنج رنگ کے ہوگئے لیکن لال رنگ بھی نمایاں رہا جو اس بات کی نشاندہی تھی کہ ٹرین ٹریک ون پر موجود ہے اور جوں ہی انہوں نے ٹریک ون کا سگنل سرخ کیا تو پینل نے پیچھے سے آنے والی ٹرین کو ٹریک 2 پر جانے کا اشارہ دیا۔
اسی گفتگو کے دوران وہ قدیم زمانے کے فون میں لگی سائیکل کے پیڈل نما چرخی گھماتے اور اگلے اسٹیشن سے صورتحال کی تفصیلات لیتے اور یہ سلسلہ پوری گفتگو کے دوران جاری رہا۔
ایک موقع پر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کو ہدایت ملی کہ وہ اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کو دوسرے ٹریک پر لے جانے کا سگنل دیں اور ٹرین کو روانہ کردیں لیکن انہوں نے ہدایت دینے والے کو ایسا کرنے سے منع کیا اور اپنے تجربے کی بنیاد پر بتایا کہ جتنا وقت ٹرین کو دوسرے ٹریک پر لانے میں لگے گا اس دوران اگلا راستہ کلیئر ہوجائے گا، اگر ہدایات کے مطابق عمل کیا تو تھوڑی دوری پر دو سے تین گاڑیاں ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں گی، اس طرح اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی رائے تسلیم کی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد ٹرین کو اسی ٹریک پر گرین سگنل ملنے کے بعد منزل کی جانب روانہ کردیا گیا۔
اس تجربے سے معلوم ہوا کہ محکمہ ریلوے کا نظام قدیم ضرور ہے لیکن اتنا فرسودہ نہیں کہ ٹرینوں کے حادثات معمول بن جائیں تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 85 فیصد تک ٹرین حادثات پھاٹک کے نہ ہونے یا پھاٹک کھلنے اور بند کرنے کے دوران پیش آتے ہیں۔
ٹرین حادثات سے بچاؤ کے لیے ڈرائیور حضرات کی بہتر تربیت اور پھاٹکوں کا نظام درست کرنا ہوگا، اگر اس طرف توجہ دی جائے تو ٹرین کی زد میں آکر قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے۔