14 جنوری ، 2018
کراچی: ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران مقتول انتظار کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا لیکن انہیں سنا نہیں گیا اور لاش بھی کافی دیر بعد ان کے حوالے کی گئی۔
19 سالہ انتظار کے والد نے کہا کہ پولیس کا محکمہ ریاست کا حصہ ہوتا ہے لیکن پولیس قتل کو حادثے کی شکل دینے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جو بھی پتا چلا ہے وہ میڈیا سے پتا چلا ہے، اگر کوئی اشارے پر نہیں رکتا تو کیا اسے مار دیا جائے گا، کیا اس ملک میں جنگل کا قانون چل رہا ہے۔
مقتول کے والد نے کہا کہ ان کا بیٹا ملائیشیا میں تعلیم حاصل کر رہا ہے جو 19 نومبر کو ہی چھٹیوں پر وطن واپس آیا تھا جسے قتل کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 'مجھے پولیس سے کوئی امید نہیں، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے امید ہے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف فراہم کیا جائے۔
مقتول انتظار کے والدین کی پریس کانفرنس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔
ترجمان وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جی ساؤتھ اور دیگر افسران وزیراعلیٰ ہاؤس طلب کیے گئے جب کہ ایڈیشنل آئی جی نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ اے سی ایل سی اہلکار اور ایس ایچ او گرفتار ہیں۔
ترجمان وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے وزیراعلیٰ کو مزید بتایا کہ شفاف تفتیش ہورہی ہے جب کہ مقدمہ والد کی مرضی اور وکیل سامنے درج کیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس کو تفتیش کے معاملے پر مقتول انتظار کے والدین سے رابطے کی ہدایت کردی۔
ایس ایس پی فاروق اعوان نے بتایا کہ فائرنگ کے الزام میں 6 پولیس اہلکاروں گرفتار کیا گیا ہے۔
بعدازاں مزید دو اہلکاروں نے بھی گرفتاری دیدی جس کے بعد 9 میں سے 8 ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام گرفتار افسران و اہلکاروں کا کل ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔
پولیس ذرائع کے مطابق اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئ جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے نوجوان کی شناخت انتظار احمد ولد اشتیاق احمد کے نام سے ہوئی ہے، پولیس کی جانب سے ابتدائی طور پر کہا گیا کہ فائرنگ موٹر سائیکل سوار ملزمان نے کی۔
بعد ازاں ڈی آئی جی سی آئی اے ثاقب اسماعیل نے جناح اسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیابان اتحاد میں پکٹ پر اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں نے گاڑی کو مشکوک سمجھ کر رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے میں ملوث چاروں اہلکاروں کو ساؤتھ پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے گولیوں کے 16 خول ملے ہیں جب کہ مقتول کی گاڑی میں لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی۔
دوسری جانب پولیس نے واقعہ کا مقدمہ بھی درج کرلیا تاہم اس میں کسی کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب مقتول کے والد کی جانب سے دشمنی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے جن کا کہنا ہے کہ بیٹے کا 2 روز قبل دو لڑکوں فہد اور حیدر سے جھگڑا ہوا تھا، ایک لڑکا پولیس افسر اور دوسرا وکیل کا بیٹا ہے۔