بدقسمتی سے پاکستان میں عوام کو بنیادی حقوق اتنا ترسا کر فراہم کیے جاتے ہیں کہ لوگ اسے اپنا حق نہیں بلکہ حکومت کا احسان سمجھنے لگتے ہیں۔
06 فروری ، 2018
عوامی مسائل کا حل اور معیاری طرز زندگی کے لیے اقدامات ایک ذمہ دار حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ ان بنیادی سہولیات میں صحت، تعلیم، رہائش ، مناسب روزگار کے ساتھ آرام دہ آمدورفت کی سہولتیں قابل ذکر ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تواتر سے ایسے حکمراں آتے رہے جنہوں نے نا تو عوامی مسائل پر کوئی توجہ دی اور اگر کہیں کوئی کوشش ہوئی بھی تو عوام کو ان کے بنیادی حقوق ترسا کر، احسان جتا کر غیر معیاری فراہم کیے گئے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے اور حکومتی مسند پر براجمان ہونے والے وزراء اور ارکان اسمبلی ان سہولیات کو عوام کا حق نہیں بلکہ اسے حکومت کا احسان سمجھتے۔
یوں تو پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، ہر صوبے میں ذرائع آمد و رفت کی بہتری کے کام جاری ہیں۔ لیکن جو بات ایک صوبے کو دوسرے صوبے سے ممتاز بناتی ہے وہ تعمیراتی کاموں کی رفتار اور معیار ہے اور اس کی جانچ کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ایک عام تقابلی جائزہ بھی لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر کام ہوا اور وہاں سڑکیں اور صفائی کا معیار دیگر صوبوں کی نسبت بہت اچھا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کراچی کے شہری لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کی ترقی پر رشک کرتے تھے، فروری 2016 میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی آکر تقریباً 35 کلو میٹر طویل گرین لائن میٹرو بس منصوبے کا افتتاح کیا۔ یہ ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے شہر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد اور بڑا منصوبہ ہے۔
وفاق کی دیکھا دیکھی سندھ حکومت نے بھی کراچی میں اورنج لائن میٹرو بس منصوبے کا آغاز کردیا۔ بعد ازاں اس منصوبے کا نام تبدیل کرکے ’’عبدالستار ایدھی لائن‘‘ رکھ دیا گیا۔
کسی بھی منصوبے پر تعمیراتی کام کا افتتاح بلاشبہ مکینوں کے لیے خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن یہ خوشی اس وقت باعث پریشانی و تکلیف بن جاتی ہے جب اس کی تکمیل حد سے زیادہ تاخیر ہوجائے۔
"اورنج" یا "عبدالستار ایدھی" لائن بس منصوبے کا جائزہ لیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سندھ حکومت نے پروجیکٹ پر کام تو شروع کردیا لیکن اب تک یہ منصوبہ تکمیل سے بہت دور اور بدنظمی کا شکار ہے۔جس کی وجہ سے علاقے کے عوام اذیت اور تکلیف سے دوچار ہیں۔
عبدالستار ایدھی لائن (اورنج لائن) بس منصوبے پر کام کا باقاعدہ آغاز 11 جون 2016 کو ہوا تھا اور کراچی میں بننے والے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (BRTS) میں یہ سب سے چھوٹا منصوبہ ہے جس کی طوالت صرف 3.9 کلو میٹر ہے۔
اس منصوبے میں بس خصوصی سڑک پر کراچی کے ضلع غربی میں واقع اورنگی ٹاؤن سے چلے گی اور بورڈ آفس نارتھ ناظم آباد میں اس کا آخری اسٹیشن ہوگا، یہ روٹ اتنا مختصر ہے کہ اس میں محض 4 اسٹیشنز یا اسٹاپ بنائے جائیں گے۔
اس پروجیکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا ٹھیکہ دو الگ کمپنیوں کے پاس ہے۔
پیکج ون پر ایم ایس اینجینئرنگ پرائیوٹ نامی کمپنی کام کررہی ہے جو ٹاؤن میونسپل آفس سے باچا خان فلائی اوور تک منصوبے پر کام کرے گی جبکہ اس سے آگے بورڈ آفس تک کا کام کے این کے نامی کمپنی کے ذمے ہے۔
اس منصوبے پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ 1.14 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پروجیکٹ کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والی سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بس منصوبے کی تکمیل کے بعد یومیہ 50 ہزار مسافر اس سے مستفید ہوں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی سرکاری نظام موجود نہیں، کراچی جیسے بڑے شہر میں لوگ کھٹارہ بسوں اور چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں بسنے والے غریب لوگوں کی اکثریت نے تو اسے اپنا مقدر ہی سمجھ لیا ہے جب کہ مڈل کلاس افراد آمد و رفت کے لیے ذاتی سواری یعنی کار، موٹرسائیکل یا انٹرنیٹ ٹیکسی کی سروس پر انحصار کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں ایک ایسی بس سروس جس کا روٹ الگ ہو، جو ٹریفک جام میں نہ پھنسے، جو سڑک پر چلنے کے لیے مکمل طور پر فٹ ہو، صاف ستھری ہو اور اس میں ایئر کنڈیشنر بھی ہو، بہت ضروری تھی اور سندھ حکومت کا اورنج لائن منصوبہ شروع کرنا اس تناظر میں قابل ستائش ہے۔
اورنگی ٹاؤن کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کی آمدنی کے ذرائع دیگر علاقوں کے مقابلے میں کم ہیں جس کی وجہ سے یہاں متوسط سے نچلی سطح کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پزیر ہیں اور اس منصوبے کے مختصر ترین روٹ سے انہیں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
اورنگی سے سائٹ ایریا جانے والے افراد کو اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا
لوگوں کی بڑی تعداد روزانہ ملازمت کے لیے سائٹ ایریا کا رخ کرتی ہے جہاں متعدد کارخانے اور فیکٹریاں موجود ہیں، باقی لوگ صدر، کورنگی اور شہر کے دیگر علاقوں میں ملازمت کے لیے جاتے ہیں البتہ زیادہ تر لوگ سائٹ ایریا اور صدر کا رخ کرتے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سائٹ ایریا جانے والے افراد کو اورنج لائن سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور انہیں غیر معیاری بسوں، چنگ چی رکشوں اور کمپنی کی فراہم کردہ ’’کنٹریکٹ کیرج‘‘ سے ہی کام چلانا پڑے گا۔
وہ لوگ جو ملازمت کے لیے صدر اور شہر کے دیگر علاقوں میں جاتے ہیں ان کے لیے اورنج لائن بس ’’فیڈر بس سروس‘‘ کا کردار ادا کرے گی جو انہیں اورنگی ٹاؤن نمبر 5 سے بورڈ آفس تک پہنچادے گی، لوگ فی الحال یہ سفر زیادہ تر چنگ چی رکشوں کے ذریعے کرتے ہیں اور بورڈ آفس سے آگے کی گاڑی پکڑتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کے اس منصوبے سے اورنگی ٹاون نمبر 5 سے نارتھ ناظم آباد بورڈ آفس تک کے راستے میں رہنے والے ہی مستفید ہو سکیں گے۔ اورنج لائن اورنگی پانچ نمبر سے تھوڑا پہلے واقع ٹاؤن میونسپل آفس سے چلا کرے گی۔ اورنگی کے اس علاقے سے دنیا کی اس سب سے بڑی کچی آبادی کی حدود کا آغاز ہوتا ہے، یعنی اورنج لائن بس منصوبے سے اورنگی ٹاون کی زیادہ تر آبادی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
یوں اورنج لائن اورنگی کی محدود آبادی کے لیے ایک ’’فیڈر بس سروس‘‘ کا کردار ادا کرے گی جو انہیں اورنگی ٹاؤن نمبر 5 سے بورڈ آفس تک کے سفر کی سہولت فراہم کرے گی۔ اس سے آگے جانے والے افراد کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی دوسری ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا ہو گا۔
اس کے برعکس اگر یہ منصوبہ اورنگی ٹاؤن نمبر 16 یا ’’پاکستان بازار پولیس اسٹیشن‘‘ سے شروع اور بورڈ آفس پر ختم ہوتا تو صحیح معنوں میں یہاں کے لوگوں کی جان چنگ چی رکشوں سے چھوٹ جاتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اورنگی کے باقی ماندہ علاقوں سے مسافر ٹاؤن میونسپل آفس تک کیسے پہنچیں گے؟ کیا سندھ حکومت ان علاقوں سے لوگوں کو لانے کے لیے ’’فیڈر بس سروس‘‘ بھی چلائے گی؟ کیا واقعی لوگ پہلے چنگ چی رکشوں میں بیٹھ کر میونسپل آفس اتریں گے اور پھر اورنج لائن پر بیٹھ کر بورڈ آفس پہنچیں گے اور پھر وہاں سے آگے کوئی دوسری گاڑی لینے کو ترجیح دیں گے یا پھر ایک ہی کرائے میں چنگ چی کے ذریعے سیدھا بورڈ آفس پہنچ جائیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن پر منصوبہ شروع کرنے سے قبل غور کیا جانا چاہیے تھا۔ بہرحال اب بھی اگر اس منصوبے کو اورنگی کے دیگر علاقوں تک وسعت دے دی جائے تو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہلانے والے اس ٹاؤن کے لوگوں کی آمد و رفت کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے۔
اس پروجیکٹ کے حوالے سے جب اورنگی کے لوگوں سے بات کی گئی تو انہوں نے شکایتوں کے انبار لگادیے، کسی نے کہا کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ کونسا منصوبہ ہے اور کیا بنایا جارہا ہے، بس اتنا معلوم ہے کہ سڑک بنائی جارہی ہے۔
ایک محنت کش نے کہا کہ ’’ہم تو ساری زندگی یہی دیکھتے آئے ہیں، حکومت سڑکیں کھود کر چھوڑ دیتی ہے اور ہم خوار ہوتے رہتے ہیں، معلوم نہیں کام جلدی کیوں نہیں مکمل ہوتے‘‘۔
چنگ چی رکشوں سے تنگ ایک مسافر نے اپنا درد کچھ یوں بیان کیا کہ، ’’پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا کوئی ولی وارث نہیں، ہمیں چنگ چی رکشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔
غصے سے بھرے ایک نوجوان نے تو اس پروجیکٹ کو ہی غیر ضروری قرار دے دیا اور کہا کہ، ’’اس پروجیکٹ کے شروع ہونے سے پہلے سڑکوں کی حالت بہت اچھی تھی اور ٹریفک کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، بورڈ آفس تک آرام سے سفر ہوجاتا تھا لیکن جب سے کھدائی ہوئی ہے سڑکیں تباہ ہوگئیں ہیں اور بورڈ آفس تک کا سفر عذاب بن گیا ہے‘‘۔
جب ایک شخص کو پروجیکٹ کی تفصیلات بتائی گئیں اور اس سے پوچھا گیا کہ بس سروس شروع ہونے کے بعد کیا آپ اس پر سفر کریں گے تو اس نے کہا کہ، ’’ایک بار تو ضرور سفر کرکے دیکھوں گا باقی اس بس کا روٹ بہت مختصر ہے اور میں زیادہ تر اپنی بائیک پر ہی سفر کرتا ہوں‘‘۔
اورنگی ٹاؤن سے اس منصوبے کے راستے پر روزانہ سفر کرنے والے ایک مسافر نے بتایا کہ پروجیکٹ کے آغاز سے لے کر اختتام تک کمپنی نے حفاظتی اقدامات کو پوری طرح نظر انداز رکھا ہے۔
کہیں بھی وارننگ سائنز نہیں لگائے گئے نہ ہی ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے متبادل سڑکوں کا انتظام کیا گیا ہے۔
باچا خان فلائی اوور سے پہلے اور بعد کی سڑک کا حال تو سب سے زیادہ خراب ہے، یہاں ہر وقت دھول اڑتی رہتی ہے اور مٹی کے بادل سے چھائے رہتے ہیں جس سے بچے اور بڑے سب ہی سانس اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس علاقے میں منصوبے کے لیے گہری کھدائی بھی کی جارہی ہے لیکن حفاظتی اقدامات نا پید ہیں اور لوگوں کو کسی بھی خطرے سے آگاہ کرنے والے سائن بورڈ ز نہیں لگائے گئے۔
اس کے علاوہ علاقے میں اسٹریٹ لائٹ کا بھی انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں حادثات کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اس پروجیکٹ کے حوالے سے جب وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تعمیراتی کام میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب اس منصوبے پر کام تیز کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عبدالستار ایدھی لائن (اورنج لائن) بس منصوبے کے دو پیکجز ہیں، پہلے پیکج پر ایم ایس انجینئرنگ اور دوسرے پر کے این کے نامی کمپنی کام کررہی ہے۔
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ کے مطابق بعض قانونی معاملات کی وجہ سے کے این کے نے پروجیکٹ پر تاخیر سے کام شروع کیا البتہ اس کے کام کی رفتار اطمینان بخش ہے۔
جب ان کی توجہ پروجیکٹ پر حفاظتی اقدامات کو نظرانداز کیے جانے کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ کمپنی کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ عوام کی سہولت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے اور وہ بذات خود آنے والے دنوں میں پروجیکٹ کا جائزہ لینے کے لیے علاقے کا دورہ کریں گے۔
بس منصوبے کو اورنگی ٹاؤن کے دیگر علاقوں تک وسعت دینے سے متعلق سوال کے جواب میں ناصر حسین نے بتایا کہ فی الحال ان کی اولین ترجیح پروجیکٹ کو تیزی سے مکمل کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار جب بس چلنا شروع ہوجائے گی تو پروجیکٹ کو دوسرے علاقوں تک بھی وسعت دی جاسکتی ہے۔
اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی کمپنی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھلے ہی اس علاقے سے گزرنے والے افراد کا تعلق اورنگی ٹاؤن سے ہے اور وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ بھی انسان ہیں اور ان کی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی پوش علاقوں میں رہنے والوں کی ہے۔
اس پروجیکٹ پر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے، روشنی کا انتظام کیا جائے، فالتو مٹی کو ٹھکانے لگایا جائے، متبادل روٹس بنائے جائیں اور سب سے بڑھ کر جلد از جلد منصوبے کو مکمل کیا جائے۔
سندھ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج کراچی کے شہریوں کو بس پر سفر کرنے کے لیے قائل کرنا ہوگا کیوں کہ طویل عرصے سے حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے بعد شہریوں نے اپنے مسائل کا حل خود نکالنا سیکھ لیا ہے، عوام کی اکثریت آمد و رفت کے لیے ذاتی سواری (کار یا موٹر سائیکل) استعمال کرنے لگی ہے اور انہیں بسوں سے کوئی سروکار نہیں۔
حکومت کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ شہر کی آبادی میں اضافے کی رفتار تیز اور حکومت کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی پروجیکٹس کی رفتار کم ہے، اس عدم توازن کو ختم نہ کیا گیا تو شہر کے مسائل میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہے گا۔