22 جنوری ، 2018
اسلام آباد:محمداسلم نے1979ء میں گردیز، افغانستان سے پاکستان ہجرت کی، بارڈر پار کرنے سے پہلےخوف تلے رہنے والےافغان کے ملک پرسوویت روس نےحملہ کیا تھا۔بنو زئی پشتون قبیلے سے تعلق رکھنے والے اسلم ملک میں جاری جنگ سے اپنی بیوی اور چار بچوں کوبچالائے تھےجواس وقت 40کے پیٹے میں تھےاور پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر رہنے کے بعدبالآخر 1985ء میں منڈی بہاء الدین پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ٹبی دریائی میں آبادہوگئے۔
ان کی اہلیہ فاطمہ بی بی نے پاکستان میں مزید 4 بچوں کوجنم دیا،اسلم اور ان کے بچوں نے ملک کی مرکزی رجسٹریشن اتھارٹی نادرا کے ذریعے رجسٹریشن کے لئے کئی کوششیں کیں لیکن لاحاصل۔
اس کےکئی سال بعداس افغان خاندان کوخوش قسمتی سے ایک نادرا اہلکار انصارگوندل ملا جس سے ملاقات کے بعداس افغان خاندان نے اپنے شناختی کارڈز کا عمل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے بعد منزل پا لی اور افغان باشندے اپنے ناموں میں معمولی تبدیلی کے ساتھ پاکستانی شہری بن گئے، اسلم کا انتقال 2016ء میں ہوا۔
ڈی اے ڈائریکٹر قمر ندیم جنہوں نے وی آئی پی نادرا رجسٹریشن سنٹر نادرا ہیڈ کوارٹر میں افغانوں کے کارڈز پر کارروائی کی انہیں ہٹادیا گیا۔نادرا رجسٹریشن سنٹر بلدیہ ٹاؤن ون کراچی کے ڈی اے ڈائریکٹر محمد خان کو بھی اس نوعیت کے الزامات پر برطرف کیا گیا۔
یہ طویل فہرست بتاتی ہے کہ کیسے نادرا کے 400 سے زائد اہلکاروں نے مبینہ طور پر 2005ء سے تقریباً 72ہزار غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنائے، یہ چونکادینے والے انکشافات ایسے میں سامنے آئے جب نادرا نے سرکاری سطح پر تصدیق کی کہ اس نے گزشتہ 5سال کے دوران اڑھائی لاکھ سے زائد مشتبہ شناختی کارڈ بلاک کئے ہیں۔
یہ شناختی کارڈ غیر ملکیوں اور پاکستانیوں دونوں کو جاری ہوئے تھے۔ نادرا ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ’’مسٹر انصار غیر قانونی شناختی کارڈز بنانے کے عمل میں مبینہ طور پر ملوث ہونےکےالزام میں انکوائری کاسا منا کرر ہے ہیں‘‘۔
نادر اکے سینئرافسر کرنل( ر)طاہر مقصود ان الزامات کی تحقیقات کرنیوالی کمیٹی کی سربراہی کررہے ہیں۔ْ
ترجمان نے مزید بتایا’’ہم نےشکایت پرنوٹس لیا اور انکوائر ی کا عمل(نادرا میں تمام ملزمان کے خلاف) جاری ہے۔ 29سالہ امام جان نے جیو نیوز کو بتایا’’ میں1989 ء میں یہیں پیدا ہوا، ہم پاکستانی ہیں، ہمارے والدین نے تقریباً 4دہائیوں قبل افغانستان سے ہجرت کی،حال ہی میں مجھے دیگر افراد خانہ کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ ملا اور یہ غیر قانونی طریقے سے نہیں بنوایا گیا‘‘۔
غیرملکیوں کی غیر قانونی رجسٹریشن اوردیگر کرپشن نےکراچی سے پشاور اور بیرون ملک بھی نادرا کے اعلیٰ حکام کو دہلا کر رکھ دیا تھا ۔400 سے زائد اہلکاروں کوغیر ملکیوں کے شناختی کارڈ بنانے پر تحقیقات میں برطرف کیا گیایا وہ زیرتفتیش ہیں لیکن ایک سینئر اہلکار کے مطابق ان ملازمین کی تعداد650ہے جو یا برطرف ہوئے یا تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔
جیو نیوز کے پاس موجود ایک خفیہ دستاویز کے مطابق ’’کئی نادرا مراکز سے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کئے جاتے رہے۔ نادرا رجسٹریشن سنٹر ڈی ایچ اے ، اورنگی ٹاؤن عائشہ منزل، کیماڑی اور کراچی میں دیگر نادرا دفاتر نے افغان اور بنگالی شہریوں کے 10ہزار سے 20ہزار روپے فی کس کے عوض ہزاروں شناختی کارڈ بنائے۔
لاہور اور ڈی آئی خان میں نادرا دفاتر بھی غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کرتے رہے۔ کراچی ریجنل دفاتر میں نادرا کی طرف سے تعینات کئے گئے 3ریٹائرڈ ملٹری افسران بھی اس میں ملوث تھے ‘‘۔ دستاویز میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور میں تقریباً4035 غیر ملکیوں نے شناختی کارڈ بنوائے اور تقریباً 3430 افغان شہریوں نے پاکستانی قومی شناختی کارڈ حاصل کئے۔تقریباً 236 ایرانیوں نےغیر قانونی طور پر شناختی کارڈز حاصل کئے جب کہ5 عراقی شہریوں نے بھی نادرا حکام کی مدد سےکارڈ بنوائے۔
دستاویز میں مزید بتایا گیا کہ 111 بنگالیوں، 21 چینی شہریو ں ،7مراکشی ، 3ازبک، 29بھارتی اور انڈونیشیا، امریکا، برطانیہ کےایک ایک شہری نے غیر قانونی طور پر شناختی کارڈبنوایا۔باقی 170 جعلی شناختی کارڈز رکھنے والوں کاتعلق مصر،سینیگال، مالدیپ اور بعض دیگر ممالک سے ہے۔
نادرا نے 93 افسران کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جبکہ 9کو برطرف کیا گیا ، دیگر307ء اہلکار نچلے درجے کے اہلکار ہیں۔ جن میں سے 27کو تحقیقات کرنے والوں کی جانب سے فارغ کردیا گیا۔تقریباً35افسران اور 110اہلکار سنگین الزاما ت میں تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔
افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈز کے اجراء نے اس وقت عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب افغان طالبان کا سابق سربراہ ملا اختر منصور ایران جاتے ہوئے بلوچستان میں مارا گیا۔ وہ پاکستانی شناختی دستاویز پر سفر کررہا تھا۔
اس دھچکے کے رد عمل میں اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ’ازسرنوتصدیق کا پروگرام‘ شروع کیا جس کی سربراہی نادرا کے ایک قابل افسرمیراجام خان درانی کو سونپی، سرکاری دستاویزات میں مزید انکشاف کیا گیا کہ مذکورہ بالا نادرا اہلکار ، جو مختلف نادراریجنل دفاتر میں مختلف عہدوں پرتعینات تھے،3 درجن سےزائد نادرا ریجنل دفاتر میں انکوائری بھگت رہے ہیں۔
کراچی میں 108 نادرا اہلکاروں کو یاتو فارغ کیا گیا وہ تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ تقریباً ایک درجن نادرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد، 25 سرگودھا ریجنل دفاتر، 43 لاہور ریجنل افسز، 12 وفاقی دارالحکومت کے ریجنل دفاتر، پشاور کے ریجنل دفاتر کے 75، ملتان کے ریجنل دفاتر کے 3، کوئٹہ کے ریجنل دفاتر کے 102، سکھر کے ریجنل دفاتر سے30 اوردیگر چھوٹے مراکز کےاہلکار الزامات کا سامنا کرر ہے ہیں۔
سینٹ کمیٹی کے حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں نادرا کے چیئرمین عثمان مبین نے انکشاف کیا کہ نادرا نے تقریباً16لاکھ مصدقہ غیر ملکیوں کی نشان دہی کرلی ہے۔ ان میں سے 38063 غیر ملکی پنجاب،24503 بلوچستان، 7046 فاٹا،41454 خیبر پختونخوا،40042 سندھ، 6149 اسلام آباد،1973 کشمیر میں،835 افراد بیرون ملک اور 121گلگت بلتستان میں ہیں۔ یہ انکشاف انہوں نے پسماندہ علاقوں کے حوالے سے سینٹ کی فنکشنل کمیٹی کے روبرو کیا۔