22 جنوری ، 2018
کراچی: نقیب اللہ کیس کی تفتیش کرنے والے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی کا کہنا ہے کہ راؤ انوار اور دیگر نے تعاون نہ کیا تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی نے کہا کیس میں ملوث افراد کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جس میں بڑی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
راؤ انوار سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ایس ایس پی
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک راؤ انوار سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ہر ذرائع سے سینئر افسران نے بھی رابطے کی کوشش کی، ان کے گھروں پر نوٹس دے دیئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ یہ ابھی پہلا مرحلہ ہے، آگے جو ہوگا وہ قانون کے مطابق ہوگا اور قانونی تقاضے پورے کریں گے۔
عابد قائم خانے مزید کہا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے جس پر پورے پاکستان کی نظر ہے، اس میں معاونت کے لیے اسپیشل برانچ کے ایس پی سمیت اعلیٰ پولیس افسران کا ساتھ حاصل ہے۔
کیس میں کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے، عابد قائم خانی
عابد قائم خانی کا کہنا تھا کہ کیس میں جو لوگ ملوث ہیں وہ پولیس افسران ہیں، اس لیے ہماری خواہش ہے کہ وہ تفتیش میں شامل ہوں، ہمارا طریقہ کار قانونی ہے، اگر وہ قانونی مراحل پر پورا نہیں اترتے تو قانونی کارورائی کریں گے، کیس مکمل میرٹ پر چلے گا، کوئی دباؤ قبول کیا نہ کریں گے۔
ایس ایس پی نے کہا کہ تمام افراد کو پولیس کے سامنے پیش ہونا چاہیے، اگر صفائی میں کچھ ہے تو پیش کریں، ہم بھی تفتیش کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ تفتیش سے الگ نہ ہوں، جو اس میں تعاون نہیں کرے گا تو کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کام کریں گے۔
عابد قائم خانی نے راؤ انوار کی گرفتاری سے متعلق سوال پر کہا کہ اگر راؤ انوار اور دیگر کیس میں تعاون نہیں کریں گے تو انہیں بالکل گرفتار کیا جائے گا لہٰذا ابھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں مزید کارروائی سے بھی میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو آج سینٹرل پولیس آفس میں انسانی حقوق کمیٹی اور آئی جی سندھ کے سامنے پیش ہونا تھا لیکن وہ پیشی کے لیے نہیں پہنچے۔
جب کہ انہیں آج ایس پی انویسٹی گیشن ٹو کے دفتر میں بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کیا گیا ہے مگر وہ وہاں بھی پیش نہیں ہوئے ہیں۔
پولیس کی ٹیم نے راؤ انوار کے گھر پر ایک نوٹس چسپاں کیا ہے جس میں انہیں ایس پی انویسٹی گیشن کے دفتر میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نمائندہ جیونیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں راؤ انوار نے کہا کہ وہ آج بھی کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
سابق ایس ایس پی نے کہا کہ ’آج بھی کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، جہاں سے انصاف ملنے کی امید ہی نہیں وہاں جا کر کیا کروں گا‘۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ’ کچھ روز قبل شارع فیصل پر ایک مقابلہ ہوا، اس مقابلے پر آئی جی نے دو لاکھ روپے انعام کااعلان کیا، بعد میں وہ مقابلہ غلط ثابت ہوا تو کیا آئی جی اس میں ملوث ہیں‘؟
انہوں نے کہا کہ ’میرے خلاف میڈیا پر بھر پور پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، نہ میں نے کسی کوپکڑا اور نہ میں کسی کو پکڑوایا، میرے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جارہی ہے‘۔
آج صبح سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے گھر چھاپے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس میں ان کے گھر سے دو اہلکاروں کو بھی حراست میں لیے جانے کا بتایا گیا تھا۔
آئی جی سندھ نے راؤ انوار کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہےکہ راؤ انوار کے گھر پر کوئی چھاپہ مارا گیا اور نہ ہی کسی کو حراست میں لیا گیا ہے۔
نقیب اللہ کے والد خان محمد نے ڈیرہ اسماعیل خان سے کراچی روانگی کے دوران میڈیا سے گفتگو میں چیف جسٹس، آرمی چیف اور وزیر اعظم سے قاتل کو سزا دینے کی اپیل کی۔
نقیب اللہ کے بھائی فرید اللہ کا کہنا ہے کہ اگر نقیب کے پاس 70 لاکھ روپے ہوتے تووہ دبئی کیوں جاتا؟ باپ مزدوری کیوں کرتاَ نقیب نے والد سے محبت کی وجہ سے نسیم اللہ کے نام سے شناختی کارڈ بنوایا تھا۔
یاد رہے کہ راؤ ا نوار نے 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔
تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نقیب کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔