26 جنوری ، 2018
کراچی: شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے ساتھ اٹھائے گئے ان کے دونوں دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کی مقتول سے دوستی بذریعہ فیس بک ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ علی اور قاسم کو رواں ماہ 3 جنوری کو نقیب اللہ کے ساتھ سہراب گوٹھ کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا تھا، تاہم بعدازاں ان دونوں کو چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ نقیب کو 13 جنوری کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں دیگر 4 افراد کے ساتھ دہشتگرد قرار دے کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
مقتول نقیب کے دوستوں علی اور قاسم نے جیو نیوز سے گفتگو میں واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
نقیب کے دوست علی نے بتایا کہ انہیں نقیب کے ساتھ 3 جنوری کو مغرب کے وقت ہوٹل سے سادہ لباس اہلکاروں نے اٹھایا اور پھر انہیں سچل تھانے کی چوکی لے جایا گیا۔
علی کے مطابق 50 منٹ بعد انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
علی نے مزید بتایا، 'پہلے نقیب کو الگ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہم نے نقیب کی چیخوں کی آواز سنی اور بعد میں مجھے اور قاسم کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا'۔
مقتول کے دوست علی کے مطابق 'پولیس نے پانی کے ذریعے نسوار ان کے حلق سے اتاری، جس سے انہیں بار بار الٹیاں ہوئیں'۔
علی نے بتایا کہ 'ہمیں کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ہم سے نقیب سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی'۔
نقیب کے دوسرے دوست قاسم نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ 'ان کے موبائل میں نقیب کے میسجز چیک کیے گئے، بعدازاں نقیب کو ہم سے الگ کردیا گیا اور ہمیں چھوڑ دیا گیا'۔
قاسم کا مزید کہنا تھا کہ 'پولیس نے ہمیں دھمکی دی کہ واقعے کا باہر کسی سے ذکر نہیں کرنا'۔
رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
جس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا، جس کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ایڈیشنل آئی ڈی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا ڈالی۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔