27 جنوری ، 2018
کراچی: چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی سندھ کو تین دن میں راؤ انوار کی گرفتاری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاون میں جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کو ہلاک کیا گیا اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب کے دہشت گرد ہونے کا دعویٰ کیا تھا جو غلط ثابت ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس لیا تھا اور راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں آج عدالت طلب کیا تھا۔
آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے گزشتہ روز تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، چیف سیکریٹری، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی اور دیگر پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
جب کہ نقیب اللہ کے والد خان محمد بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر آئی جی سندھ نے پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے سوال کیا، کہ کیا راؤ انوار عدالت میں ہیں؟ اس پر آئی جی سندھ نے بتایا نہیں وہ مفرور ہیں۔
راؤ انوار کو ہر صورت پیش ہونا چاہیے تھا: چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے راؤ انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا انہیں ہر صورت پیش ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی سندھ سے استفار کیا، کہ آپ نے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کی کیا کوشش کی؟ اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ انہیں گرفتار کرنے کی ہرطرح کوشش کی جاچکی ہے، راؤ انوار اسلام آباد میں تھےجب تک مقدمہ درج نہیں تھا۔
معزز چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ 15 دن میں راؤ انوار نے بیرون ملک سفر تو نہیں کیا، یہ بھی بتائیں کیا راؤ انوار نے نجی طیارے میں سفر کیا کہ نہیں، آپ کیوں تفصیلات ساتھ نہیں لائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کس کے طیارے آپ کے پاس ہیں، نام بتائیں، تمام چارٹرڈ طیارے رکھنے والے مالکان کے حلف نامے پیش کریں، بتایا جائے کہ ان کے طیاروں میں راؤ انوار گیا کہ نہیں۔
چیف جسٹس نے راؤ انوارکے بیرون ملک سفر کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کر لیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جمعرات تک وزارت داخلہ اور سول ایوی ایشن حکام رپورٹ جمع کرائیں، بتایا جائے کہ راؤ انوار بارڈر سے فرار تو نہیں ہوا۔
آئی جی صاحب کہیں راؤ انوار ملک سے فرار تو نہیں ہوگیا، چیف جسٹس کا مکالمہ
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا یہ بتائیں خواجہ صاحب، کراچی میں کسی نے راؤ انوار کو چھپایا تو نہیں، آئی جی صاحب کہیں راؤ انوار ملک سے فرار تو نہیں ہوگیا۔
اس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ ممکن ہے فرار ہوگیا ہو لیکن ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، وقت نہیں دے سکتا لیکن ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کتنا وقت چاہیے، جو ایماندار افسران ہیں انہیں ناکام نہیں ہونے دیں گے، آپ آزادی سے کام کریں کسی کے دباؤ میں نہ آئیں، یہاں بھی بڑے بڑے چھپانے والے موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ٹائم فریم دیں، یا پتا کریں کہاں گیا راؤ انوار، یہ تو نہیں کہ جہاں راؤ گیا وہ آپ کی پہنچ میں نہیں۔
آئی جی سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ تین دن کا وقت دیں جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ٹھیک ہے تین دن میں گرفتاری یقینی بنائیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے نقیب اللہ کے والد محمد خان کو بلایا۔
نقیب اللہ کے والد نے چیف جسٹس نے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جوڈیشل انکوائری مسئلے کا حل نہیں، جوڈیشل کمیشن کرمنل کیسز کی انکوائری نہیں کرسکتا، آئی جی اور جے آئی ٹی پر اعتبار کریں۔
چیف جسٹس نے نقیب کے والد سے مکالمہ کیا کہ نقیب اللہ محسودقوم کا اور ہمارا بچہ تھا، ریاست کو قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں نقیب کیس کی سماعت کے موقع پر پختون قومی جرگہ کے عمائدین عدالت کے باہر پہنچے۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے جس پر نقیب اللہ کیس کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔