03 فروری ، 2018
بلاول بھٹو زرداری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کےنواسے اور بے نظیر بھٹو کے بیٹے ہیں تو ان کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے بھی بیٹے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی نسبت بلاول کو پاکستانیوں کے دلوں میں اتارتی ہے تو آصف علی زرداری کی نسبت ان کو دلوں سے اتارتی ہے ۔ وہ اس مخمصے کے ساتھ والدہ کی حادثاتی موت کی وجہ سے قبل از وقت سیاست میں اترے اور ایک مبینہ وصیت کے تحت چیئرمین بنادیئے گئے۔
ابتدائی چند سال بطور طالب علم عملی سیاست سے دور رہے لیکن فراغت کے ساتھ ہی وہ میدان سیاست میں کود پڑے۔ وہ اردو بول سکتے تھے اور نہ پاکستانی سماج سے واقف تھے یوں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ پاکستانی سیاست کو سمجھنا تو کیا انہیں پاکستانی بننے میں بھی بہت وقت لگے گا لیکن خلاف توقع انہوں نے بہت کم وقت میں نہ صرف اردو سیکھ لی بلکہ پاکستانی سیاست کے رموز کو بھی سمجھنے لگے۔
گفتگو کا انداز کسی حد تک بچگانہ ضرور ہے لیکن اکثر اوقات ان کی گفتگو 65 سالہ عمران خان سے زیادہ پختہ ہوا کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی حد تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر اپنے آپ کو لبرل نظریات رکھنے والے بہادر انسان کے طور پر متعارف کروایا۔
زرداری صاحب کی کوشش رہی کہ بلاول ان کے زردارانہ سائے سے باہر نہ نکلے لیکن بلاول اور پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ کچھ عرصہ بعد وہ چونکہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کر بیرون ملک جا بیٹھے اور تب وطن واپسی کا رسک نہیں لے سکتے تھے، اس لیے بلاول کو بھی کچھ موقع ملا کہ اپنے آپ کو بطور لیڈر متعارف کرالیں۔
دھیرے دھیرے وہ فریال تالپوروں اور ڈاکٹر عاصموں سے جان چھڑا کر پارٹی میں قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن اور مصطفیٰ کھوکھر جیسے لوگوں کو آگے لانے لگے۔ سندھ میں زردارانہ سیاست کی علامت قائم علی شاہ سے جان چھڑا کر انہوں نے ڈاکٹر مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اگرچہ اس دوران بھی زرداری صاحب نے ان کی نگرانی یا پھر گمراہی کے لیے ادی فریال کو ان کے پیچھے سائے کی طرح لگا رکھا تھا لیکن بلاول کہیں نہ کہیں اپنی مرضی کرلیتے۔
الغرض وہ اپنے عمل سے یہ پیغام دینے لگے کہ وہ بلاول زرداری نہیں بلکہ بلاول بھٹو ہیں لیکن ان کی اور پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ اس دوران اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے والے زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ نتیجتاً زرداری صاحب دوبارہ میدان میں آئے اور جب وہ میدان میں واپس آئے تو بلاول بھٹو دوبارہ بلاول زرداری بننے لگے اور نتیجتاً پیپلز پارٹی دوبارہ مسلم لیگ (ق) بننے لگی۔
چونکہ ڈاکٹر عاصم کو بھی رہا کرنا تھا، عزیز بلوچ کو بھی غائب یا خاموش رکھنے کی مجبوری تھی ، نیب سے بھی بچنا تھا اور راؤ انوار جیسوں کو بھی پالنا تھا، اس لیے زرداری صاحب ان کے قدموں میں بیٹھ گئے جن کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے تھے۔ بیٹھے بھی تو ایسے بیٹھے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں تک تابعدار بنے کہ سسٹم کے خلاف مہرہ بننا بھی گوارا کیا۔
سینیٹ سے حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری میں رکاوٹیں ڈالنا اس رویے کا ایک ثبوت تھا لیکن کچھ مسلم لیگ (ن) کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور کچھ بلاول صاحب اپنے والد کے غلط ارادوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، اس لیے بالآخر وہ بل منظور ہوگیا لیکن زرداری صاحب یا پھر ان کے ہدایت کاروں نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ نیا منصوبہ قادری اور عمران خان کے ساتھ مل کر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے ڈیڈلاک پیدا کرنے کا بنا اور افسوس کہ مذکورہ مجبوریوں کی وجہ سے زرداری صاحب اس حوالے سے کماحقہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔
وہ اس عمران خان کے ساتھ ایک اسٹیج پر تقریر کرنے پر آمادہ ہوئے جنہوں نے ان کا نام چور رکھ دیا ہے اور جو ان کے ساتھ تصویر بنانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور تو اور وہ ان طاہرالقادری کے در پر مع قمر زمان کائرہ حاضر ہوئے جن کی نقلیں اتار اتار کر یہی کائرہ صاحب ہیرو بنے تھے۔ لوگ مذاق اڑاتے رہے کہ کیسے وہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے غم میں طاہرالقادری کے کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں، جنہوں نے اپنے صوبے میں راؤ انوار جیسے قاتلوں کو پولیس افسران کی وردی پہنا دی ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ زرداری صاحب بھی رسوا ہوگئے اور اپنے ساتھ قمر زمان کائرہ جیسوں کو بھی رسوا کردیا۔ افسوس کہ مقصد بھی حاصل نہ ہوا بلکہ اس عمل کے نتیجے میں جو تقویت مسلم لیگ(ن) کو حاصل ہوئی، اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔
اللہ کے کام بھی عجیب ہیں۔ جب آصف علی زرداری اینٹ سے اینٹ لگانے کی کوشش میں طاہرالقادری کے کنٹینر پر کھڑے ہوکر ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہارہے تھے تو کراچی میں ان کا پروردہ راؤ انوار، نقیب اللہ شہید اور ان جیسے دیگر بے گناہوں کا خون بہانے میں مصروف تھا۔ نقیب اللہ شہید کا خون راؤ انوار اور ان کے سرپرستوں کے چہروں سے نقاب اتارنے کا ذریعہ بنا تو زرداری، عمران خان اور طاہرالقادری کے لیے اپنا ڈرامہ مزید برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ یہ ڈرامہ چھوڑ کر وہ اپنے پروردہ راؤ انوار کو بچانے میں لگ گئے۔
اس دوران بلاول بھٹو عالمی اقتصادی فورم کے سلسلے میں ڈیوس میں تھے۔ وہاں انہوں نے ایک انڈین ٹی وی چینل اور بی بی سی کو انٹرویوز دیئے۔ ان انٹرویوز میں انہوں نے جس کمال کا مظاہرہ کیا، اس کی وجہ سے ان کی اور پارٹی کی ساکھ کے بہتر ہونے کا امکان پیدا ہوا، لیکن ابھی وہ ملک پہنچے ہی نہیں تھے کہ زرداری صاحب کے حکم پر سندھ حکومت نے ڈاکٹر عاصم کو دوبارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کا چیئرمین نامزد کردیا۔اب بلاول لاکھ بھی بہترین تقاریر کریں لیکن ان کی پارٹی سے کوئی خیر کی امید کیسے رکھے کہ جو کرپشن کے ملزموں کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین بناتی پھرے۔
زرداری صاحب نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابھی سے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے لیے منڈی لگادی۔ بلوچستان اسمبلی میں ان کا ایک ممبر نہیں لیکن وہ وہاں سے اپنے سینیٹرز منتخب کرانے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے بمشکل ان کا ایک سینیٹر منتخب ہوسکتا ہے لیکن وہ تین چار سرمایہ داروں کو میدان میں اتار رہے ہیں۔ فاٹا کے لیے انہوں نے 6 ممبران کے گروپ کے ذریعے پہلے سے بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہ ارب پتیوں کو مارکیٹ میں اتار رہے ہیں اور یہ بھی تاثر دے رہے ہیں کہ اپنا پیسہ بھی خرچ کریں گے۔
انتخابات کے لیے ابھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں ہوئے لیکن ضمیروں کے سودے ہونے لگے ہیں اور تاثر ملتا ہے کہ سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں خریدوفروخت کے گندے دھندے کے بانی بلاول کے والد آصف علی زرداری قرار پائیں گے۔ گویا ہر مرحلے پر دیکھاجائے تو بلاول، بھٹو خاندان کی عزت بنانے کی جو بھی کوشش کرتے ہیں، زرداری صاحب اپنے اقدامات سے اس کو خاک میں ملانے میں دیر نہیں لگاتے ۔ اسی طرح وہ پارٹی کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے جب بھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو زرداری صاحب اپنے زردارانہ (جو آجکل غلامانہ بھی ہے) طرز سیاست کے ذریعے اس کو تباہ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حرکت کر جاتے ہیں ۔
لگتا ہے کہ بلاول کوشش کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ پیپلز پارٹی بنالیں لیکن زرداری صاحب اسے زرداری لیگ یا مسلم لیگ (ق) رکھنے پر مصر ہیں۔ بلاول چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بلاول بھٹو ثابت کردیں لیکن زرداری صاحب تلے ہوئے ہیں کہ انہیں بلاول زرداری بنا دیں۔
ابھی تک تو زرداری صاحب کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے اور تادم تحریر بلاول کے بھٹو بننے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ بعض خوبیوں کا حامل اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہوکر بھی وہ بھٹو کم اور زرداری زیادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ دوئی ان کو کہیں کا نہیں چھوڑےگی۔
بلاول بھٹو زرداری کو اب مکمل بلاول بھٹو بننا ہوگا یا پھر مکمل بلاول زرداری ۔ دو کشتیوں پر اس سواری کا انجام ہر گز اچھا نہیں ہوگا۔ وہ اگر بھٹو نہیں بن سکتے تو پھر زرداری ہی بن جائیں۔ اس صورت میں ملک نہ سہی سندھ کے حکمران تو رہ جائیں گے اور عزت نہ سہی دولت تو کمالیں گے، لیکن اگر وہ بھٹو اور زرداری کو ایک ساتھ چلانے کی کوشش کرکے دو کشتیوں پر سواری کریں گے تو ملک تو کیا سندھ بھی کھودیں گے اور سندھ تک محدود ہونے والی پیپلز پارٹی لاڑکانہ تک سکڑ جائے گی۔
یہ تحریر 3 فروری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔