پاکستان
Time 05 فروری ، 2018

میمو گیٹ کیس کا دوبارہ کھولاجانا 'سیاسی تماشہ' ہے، حسین حقانی


سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے میمو گیٹ کیس دوبارہ کھولے جانے کو 'سیاسی تماشہ' قرار دے دیا۔

اپنے ایک بیان میں حسین حقانی کا کہنا تھا، 'سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد 4 چیف جسٹس  آئے، کسی نےکیس کو ہاتھ نہیں لگایا'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا، 'بابا رحمتے کے کہنے ​پر پاکستان نہیں آؤں گا، باقی دنیا میں اُن کی نہیں چلتی'۔

اپنے بیان میں حسین حقانی نے سوال اٹھایا، '6 سال پہلے میمو گیٹ کیس کی سماعت 9 رکنی بینچ نےکی تھی، اب میموکیس کی سماعت کے لیے صرف 3 رکنی بینچ کیوں؟'

حسین حقانی نے سوال کیا، 'میمو کیس کے فیصلے میں قانونی غلطیوں پر نظرثانی درخواست کو 6 سال ہوگئے، کیا عدالت اس درخواست کی بھی سماعت کرے گی؟'

ان کا  مزید کہنا تھا، '2011 کے فیصلےمیں 2003 میں منسوخ قواعد کا حوالہ دیا گیا'۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران میموگیٹ کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی وطن واپس آکر میمو گیٹ کاسامنا کریں۔

بعدازاں رواں ماہ 2 فروری کو چیف جسٹس نے میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے اپنی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا جبکہ کیس کی سماعت کے لیے 8 فروری کی تاریخ مقرر کی گئی۔

سپریم کورٹ نے میموگیٹ کیس میں 24 درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیے، جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، عبدالقادر بلوچ، غوث علی شاہ، حسین حقانی، اقبال ظفر جھگڑا، راجہ فاروق حیدر،حفیظ الرحمان، مولوی اقبال حیدر اور شفقت اللہ وغیرہ شامل ہیں۔

میمو گیٹ اسکینڈل

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اُس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط (میمو) سامنے آیا تھا۔

حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔

میمو گیٹ میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے امریکا سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے۔

اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔

اس معاملے کو اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔

مزید خبریں :