مردان کی اسماء کا ڈی این اے مشتبہ شخص سے میچ کرگیا، بچی کے 3 رشتہ دار گرفتار

مردان کی 4 سالہ اسماء کی لاش 15 جنوری کو گھر کے قریب کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی—۔فائل فوٹو

لاہور: مردان میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 4 سال کی بچی اسماء سے لیا گیا ڈی این اے ایک مشتبہ شخص سے میچ کرگیا جب کہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بچی کے 3 رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا۔

ذرائع کے مطابق مردان پولیس کو پنجاب فرانزک لیب کی جانب سے اسما کی ڈی این اے رپورٹ موصول ہوگئی جس کے بعد پولیس نے گوجر گڑھی میں کارروائی کرتے ہوئے اسما کے 3 رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا۔

یاد رہے کہ مردان کے گاؤں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار کی 4 سالہ بچی اسماء کی لاش 15 جنوری کو گھر کے قریب کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی، جس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی تھی کہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔

بعدازاں 26 جنوری کو ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بھی تصدیق کی تھی کہ ڈی این اے کے ذریعے اسماء سے زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔

بچی کے قتل کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے 145 افراد کے ڈی این  اے کے نمونے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیجے تھے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی افتخار مشوانی نے دعویٰ کیا تھا کہ فرانزک رپورٹ میں مردان کی 4 سالہ اسماء سے زیادتی کی تصدیق نہیں ہوئی اور نہ ہی بچی کو قتل کیا گیا بلکہ اس کی طبعی موت واقع ہوئی۔

بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے افتخار مشوانی نے کہا تھا کہ ضلعی ناظم حمایت اللہ مایار بچی کے ساتھ زیادتی کا الزام لگا کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔

جس پر ضلعی ناظم کا کہنا تھا کہ فرانزک رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق نہ ہوئی ہو تو ہمیں بھی خوشی ہوگی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اگر بچی سے زیادتی نہیں ہوئی تو قتل تو ہوا ہے، ملزمان اب تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے'۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ، 'اگر کچھ بھی نہیں ہوا تو 243 لوگوں کے ڈی این اے نمونے کیوں لیے گئے ہیں'۔

دوسری جانب وزیرقانون پنجاب رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسما کیس میں پراپیگنڈا کیا گیا تھا کہ بچی طبعی موت مری تاہم اب بچی کا ڈی این اے ایک ملزم سے میچ کر گیا اور ڈی این اے رپورٹ خیبرپختونخوا حکومت کے حوالے کردی ہے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی بچی کے قتل کا ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔

مزید خبریں :