انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم:کوئی ججز کو نکال باہر نہیں کرسکتا، چیف جسٹس


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم سے متعلق 6 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، کوئی ججز کو نکال باہر نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجا ظفر الحق سے کہا کہ 'آپ عدالت میں آتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے، آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ عدالت نہیں آتے، ذرا اُن لوگوں کو کبھی پیار سے لے کر آئیں، دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے تھا، لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا، لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی'۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے'، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ججوں کو اختیار آئین نے دیئے ہیں، عدلیہ اور فوج کو آئین نے تحفظ دیا ہے، آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے'۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'کسی آئینی ادارے کو دھمکانا، تنقید کرنا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے'۔

جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ 'ہم نے عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے، کون صحیح اور کون غلط ہے اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے'۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'لوگوں کومعلوم ہے کہ اس عدلیہ پر حملہ کس نے کیا'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'توہین عدالت میں مجرم کی سزا 6 ماہ ہے اور عدالت کے پاس ملزم کو اس سے زیادہ مدت  کے لیے جیل بھیجنے کا اختیار ہے'۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'عدالت اتنی رحمدلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'مجھے جسٹس اعجازالاحسن نے برطانیہ کی عدالت کا فیصلہ دکھایا ہے، جس میں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے پر بلاجواز تنقید ہو تو جج جواب دے سکتے ہیں'۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'ملک کی تباہی کردی گئی ہے، ہیجان پیدا کردیا گیا ہے، باپ بیٹی دونوں تقریریں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں کیوں نکالا'۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'یہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے'۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'آپ صبر کیوں دکھا رہے ہیں؟'

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ 'معاشرہ سو نہیں رہا، جاگ رہا ہے'۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'قانون ساز پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں، کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟''

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'قانون آئین سے متصادم ہے تو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایماندار شخص حکمرانی کرے، اگر ادارے کا سربراہ ایماندار نہ ہو تو پورے ادارے پر اثر پڑتا ہے، سپریم کورٹ کی عمارت شاہراہ دستور پر قائم عمارتوں سے اونچی ہے، یہ عمارت کیوں اونچی ہے، نہیں بتاؤں گا، ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے، بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا'۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'سیسیلین مافیا اور گارڈ فادر کی عدالتی آبزرویشن درست تھی، آج کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو باہر نکال دیں'۔

چیف جسٹس نے کہا 'عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، ہم پریشان ہیں نہ ہی قوم پریشان ہے، الحمدللہ کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا'۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ 'عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل پر آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں'۔

بعدازاں کیس کی مزید سماعت کل (8 فروری) دن ایک بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا تھا، جس پر عدالت عظمیٰ نے یکطرفہ کارروائی کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔

نواز شریف کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 'یہ بل پارلیمنٹ نے پاس کیا اور انہیں ان کی پارٹی نے بطور پارٹی صدر منتخب کیا، انہوں نے کوئی درخواست نہیں دی تھی لہذا وہ اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے'۔

جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر نواز شریف حصہ نہیں بننا چاہتے تو یکطرفہ کارروائی جاری رکھیں گے۔

مزید خبریں :