’اسلامی نظریاتی کونسل ایک مفید ادارہ ہے‘: نئے چیئرمین قبلہ ایاز کا خصوصی انٹرویو

ڈاکٹر قبلہ ایاز — فیس بک فوٹو

ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے موجودہ چیئرمین ہیں۔ انہیں تین نومبر، 2017 کو تین سال کی مدت کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا چئیرمین مقرر کیا گیا۔ ان سے پہلے یہ عہدہ جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کے مولانا محمد خان شیرانی کے پاس تھا جو 6 سال تک اس عہدے پر رہے اور ان کا دور تنازعات سے بھرپور رہا۔

جیو ویب ٹیم نے حال ہی میں قبلہ ایاز کا انٹرویو کیا۔ انہوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں سی آئی آئی کے مستقبل، مشکلات اور افادیت پر بات کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ چئیرمین کیسے بنے تو ان کا کہنا تھا کہ چئیرمین کے عہدے کے لیے وزارت قانون نے کچھ نام تجویز کیے تھے، جن میں سے ایک نام ان کا بھی تھا۔

’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ میرا نام تجویز کیا گیا ہے۔ میں اس وقت یونان میں تھا جہاں مجھے اطلاع دی گئی کہ وزیرِ اعظم نے میرا نام منتخب کر لیا۔‘‘

قبلہ ایاز کا تعلق بنوں سے ہے اور وہ پانچ کتابوں کے مصنف ہیں جب کہ انہوں نے برطانیہ سے پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ جب پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کو اغواء کیا گیا تھا، تو انہیں وائس چانسلر بنا دیا گیا تھا۔ اجمل خان کی بازیابی تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔

مولانا شیرانی کے دورے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کونسل مولانا شیرانی کی خدمات کی مشکور ہے، انہوں نے اپنے دور میں سی آئی آئی کو وزارتِ قانون اور پارلیمانی امور سے منسلک کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سی آئی آئی قانون سازی میں معاونت اور مشاورت فراہم کرتی ہے، اس لیے اس کا وزارتِ قانون کے ساتھ منسلک ہونا بہت ضروری تھا۔ ’’مولانا شیرانی مشہور سیاستدان تھے، اس لیے سی آئی آئی کو ان کے دور میں اہمیت بھی ملی۔ ان کو پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا، اور اپنے دور میں انہوں نے ہمارے کتب خانے میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔‘‘

سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد کونسل زیادہ اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ اگرچہ اس کی رپورٹس کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے، مگر تاثر یہ ہے کہ پارلیمنٹ اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور نہ ہی وہاں ان پر زیادہ بحث ہوتی ہے۔

سی آئی آئی کے بااثر ہونے اور اس کی اہمیت کے حوالے سے قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ ’’ میں انکار نہیں کرتا کہ ہماری تجاویز کا نفاذ سست روی کا شکار رہا ہے مگر پھر بھی سی آئی آئی کو غیر مؤثر نہیں کہا جا سکتا۔ اگر ہم نے کسی بل کی توثیق نہیں کی ہو یا اس کے بارے میں تحفظات ہوں، تو وہ قانون نہیں بن سکتا۔ 1962 سے اب تک ایسے ہزاروں بل آئے ہوں گے۔‘‘

ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو ایسی کونسل کی کیا ضرورت ہے جس کی تجازویز کو ماننے پر پارلیمان پابند نہیں ہے؟ تو قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کو قانونی معاملات میں مشاورت دینا مسلسل عمل ہے۔ فقہ زمانے کی تفہیم ہے۔ زمانہ ہمیشہ ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ چند دن پہلے ہمارے پاس بہت اہم بل آئے تھے۔ ایک بل خواجہ سرا کے حقوق کے بارے میں تھا۔ بل بہت اچھا تھا اور ہم نے اس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی رائے دی۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’خواجہ سراؤں کا مؤقف تھا کہ انہیں طبی معائنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور وہ جس بھی طریقے سے اپنی شناخت کرانا چاہتے ہیں اس کو قبول کیا جائے۔ اس پر ہم نے طویل گفتگو کرنے کے بعد یہ اتفاق کیا کہ یہ ان کا حق ہے۔‘‘

’’اسی طرح کمسن بچوں کی شادی کا بل بھی ہمارے پاس تھا۔ اس کے بارے میں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ باقی اسلامی دنیا کا اس بارے میں کیا رویہ ہے؟ تب ہی ہم جامع رپورٹ دے سکتے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے سوالات آتے رہتے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ فنانس ڈویژن سے کونسل کے شعبہ تحقیق کے لیے مزید آسامیاں مانگ لیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پارلیمان کونسل کی تجاویز ماننے کی پابند نہیں۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ آئین میں جو چیز پابند نہیں، وہاں 'چاہیے' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جو چیز پابندی کے زمرے میں آتی ہے، اس کے لیے 'کرے گا' استعمال کیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے 'کرے گا' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کی تعداد ڈیڑھ درجن سے بھی زائد ہے مگر اس میں خواتین ممبران کی تعداد صرف ایک ہے۔

اس حوالے سے قبلہ ایاز نے بتایا کہ آئین میں کہا گیا ہے کہ ایک خاتون کا ممبر ہونا تو ضروری ہے، لیکن ایسی کوئی قدغن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ خواتین ممبر نہیں ہو سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو اختیار ہے کہ وہ ایک سے زیادہ خواتین کو مقرر کر دیں اور ہم نے بھی یہی درخواست کی ہے۔

مولانا شیرانی کے دور میں کونسل کی جانب سے کچھ ایسی تجاویزات سامنے آئیں تھیں جو متنازع ہو گئی تھیں۔ مثلاً شوہر کے پاس بیوی کو مارنے کا حق، 9 سال کی بچی کی شادی ہو سکتی ہے، روپے کی جگہ سونے کا سکہ استعمال کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

قبلہ ایاز اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’میڈیا نے ان معاملات کی وضاحت نہیں کی جس کی وجہ سے غلط فہمی پھیل گئی تھی۔ ایسا تاثر قائم کیا گیا کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل عورتوں کے خلاف ہے۔ ایسی کوئی سفارش سی آئی آئی میں موجود نہیں ہے۔ مولانا صاحب سے کچھ سوالات کیے گئے تھے اور انہوں نے اپنے خیالات کا، اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ‘‘

حال ہی میں پنجاب کے ضلع قصور میں 7 سالہ زینب انصاری سے زیادتی اور قتل میں ملوث عمران علی کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے پنجاب پولیس نے پکڑا لیکن اگر ماضی کو دیکھیں تو مولانا شیرانی نے اپنے دور میں ڈی این اے کو غیر حتمی ثبوت قرار دیا تھا۔

اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کے نئے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ’’ڈی این اے کے بارے میں خود سائنسدان بھی کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ اس سے ہم ایک حتمی نتیجے پر پہنچیں۔ سی آئی آئی اور علماء ڈی این اے کو مضبوط ثبوت مانتے ہیں، اور اگر اس کے ساتھ ٹھوس ثبوت مل جائیں تو اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی نئی تحقیق آ جائے یا نئی سوچ سامنے آ جائے، تو ایسا طریقہ کار موجود ہے کہ جس کے ذریعے سابق فیصلے پر پھر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔‘‘

صدر ایوب خان کے دور میں جس وقت یہ کونسل وجود میں آئی تو اس وقت اس میں جج بھی تھے، سیاسی اور معاشرتی ماہرین بھی تھے۔ لیکن اب اس کے ممبران میں زیادہ تر مذہبی رہنما ہیں۔

قبلہ ایاز اس بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب ہمارے زیادہ تر ممبران علماء ہیں لیکن اب بھی جج اور بیوروکریٹ کونسل کے ممبر ہیں لیکن اگر تاریخ کو دیکھیں تو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی کونسل کے چیئرپرسن رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تین مارچ کو کونسل کے 9 ممبران کی مدت ختم ہو رہی ہے اور انہیں یقین ہے کہ وزارتِ قانون ایسے ہی نئے ممبران چنے گی جو کہ جج ہوں گے، ماہرِ فقہ و قانون ہوں گے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز سے بیک وقت تین طلاق اور اسکولوں میں جنسی تعلیمات کے حوالے سے بھی سوالات پوچھے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ تین دفعہ طلاق دینے پر قانون میں پابندی ہونی چاہیے اور پابندی توڑنے والے کو سزا ہونی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے کونسل کے شعبہ تحقیق سے کہا ہے کہ وہ ایک بل پر کام کریں جس کو وزارتِ قانون بھجوایا جا سکے۔ اس میں مناسب سزا تجویز کی جائے۔ ‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے جنسی تعلیم کو اسکول میں عام کرنے کا نہیں کہا تھا۔ ہم نے قصور میں ہونے والے واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ زینب کے ساتھ ہونے والا واقعہ علیحدگی میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ صرف ایک انفرادی جرم نہیں ہے بلکہ معاشرتی ڈھانچے کے زوال کا مظہر ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین کو اور اولاد کو تعلیم دینی چاہیے کہ بچوں کی حفاظت کس طرح سے کی جا سکتی ہے اور کس طرح سے بچے اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ اس پر کام جاری ہے۔ ‘‘

انہوں نے بتایا کہ ایک اور معاملہ جس پر کام ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ کفر کے فتوے روکے جائیں۔

کونسل کے مسقبل اور اس کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا تعاون کرے تو یہ کونسل ایک مفید ادارہ ہے، حال میں اٹھنے والا ختمِ نبوت کا معاملہ اس طرح نہ بڑھ پاتا اگر اس کو پہلے ہی کونسل کے پاس بھیج دیا جاتا۔