15 فروری ، 2018
چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر شہباز شریف سے منسوب ریمارکس کی تردید دی نیوز میں شائع کردی گئی۔
چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ شہباز شریف کے بارے میں منسوب ریمارکس پر تردید دی نیوز میں شائع کریں ورنہ ویڈیو چلائیں گے، پیش نہ ہونے پر پولیس، دیگر اداروں اور ای سی ایل کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، دو چار دن چینل بند کیا تو سمجھ آجائے گی۔
ترجمان جنگ گروپ نے کہا کہ کیا یہ سازش ہے کہ تمام اخبارات اور چینلز نے چیف جسٹس سے ایک ہی بات منسوب کی لیکن کارروائی صرف جنگ گروپ کے خلاف کی گئی، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
بدھ کو محترم چیف جسٹس پاکستان نے یہ پوچھاکہ تردید دی نیوز میں کیوں نہیں چھپی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ دی نیوز میں یہ وضاحت کل یعنی جمعرات کو شائع ہوگی۔
بدھ کو محترم چیف جسٹس صاحب نے نمائندہ جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر میر شکیل الرحمٰن صاحب کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بات کی۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے فرمایا تردید دی نیوز میں بھی چھاپیں ورنہ میر شکیل الرحمٰن صاحب کو کراچی میں طلب کریں گے اور ان کا وڈیو کلپ بھی چلوائیں گے۔
جنگ اور جیو نیوز کے ترجمان نے کہا کہ جہاں تک ای سی ایل میں نام ڈالنے کا تعلق ہے محترم چیف جسٹس صاحب ہر قسم کا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ ہماری طرف سے ایسی کوئی گھناؤنی، آئینی یا قانونی خلاف ورزی نہیں کی گئی اس کے باوجود محترم چیف جسٹس صاحب کی طرف سے گزشتہ تین دنوں کے دوران متواتر یہ کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن صاحب کو پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعے بلوائیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دن میں طلب کرنے کا کہا گیا اور رات میں منع کردیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ ان خبروں سے ایسا تاثر اُبھرتا رہا کہ میر شکیل الرحمٰن صاحب عدالت کی حکم عدولی کررہے ہیں اور کوئی بہت بڑے مجرم ہیں۔ جہاں تک ویڈیو کلپ دکھانے کا تعلق ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ویڈیو کلپ چلے گا توحقائق پوری طرح آپ کے علم میں آئیں گے اور ضرور اس سے ہمارے مخالفین مایوس ہوں گے۔ تاہم اس ویڈیو کلپ کو بعض دوسرے ٹی وی چینلز نے بے شمار بار نشر کیا اور اخبارات نے بھی شائع کیا ۔ ظاہر ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی تب ہی اسے نشر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
جنگ اور جیو نیوز کے ترجمان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف کے بارے میں منسوب ریمارکس ہمارے اور دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز میں جو خبریں آئی ہیں محترم چیف جسٹس صاحب کی طرف سے ان کی تردید کردی گئی ہے۔ اگر یہ سازش ہے تو بے نقاب کرنے کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ تمام اخبارات نے ایک ہی طرح کی بات محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے منسوب کرکے کیوں کر چھاپی اور ٹی وی چینلز پربھی چلائی تاکہ اصل ذمہ دار سامنے آسکے اور ریکارڈ بھی درست رہے۔
ترجمان نے کہا کہ جنگ اور دی نیوز میں جس خبر کی اشاعت پر بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی رہی وہی خبر اس میڈیا نے بھی زور و شور سے چلائی تھی ۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ جنگ گروپ کی خبر کا نوٹس لیا گیا یہی خبر تقریباً تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بھی آئی۔ لیکن صرف جنگ گروپ کو بلایا گیا دوسروں کو نہیں۔ ہم عدلیہ کی آزادی کی مہم میں سب سے آگے رہے ہیں تاہم ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ عدلیہ کے بعض ارکان کی جانب سے کچھ تبصرے بعض اداروں اور افراد کے لئے مسائل کا سبب بنتے ہیں یہ تبصرے جب تک آرڈر شیٹ میں نہ آ جائیں ان کی حیثیت صفر ہےکیونکہ ان تبصروں کی بنیاد پر میڈیا کے کچھ حصے متاثرہ لوگوں کا میڈیا ٹرائل شروع کردیتے ہیں اور یہی ہمارے پاکستان میں کئی برسوں سے ہورہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہمارے ادارے میں کام کرنے والے صحافی حضرات یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہماری خبروں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہورہا ہے۔۔۔چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار صاحب کی جانب سے جنگ/جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کو عدالت میں طلب کرنا یقیناً ان کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اور معزز اور نہایت قابل احترام ججز کی بہت عزت کرتے ہیں ۔
جنگ اور جیو گروپ کے ترجمان نے گزشتہ روز جنگ سمیت ملک کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں قابل احترام چیف جسٹس صاحب سے گفتگو کی خبر جس کی جنگ میں سرخی” خواہش ہے کہ شہباز وزیراعظم بنے “،” جیتے تو آپ کو وزیراعظم ہونا چاہیے“ ۔چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ دو چار دن چینل بند رہے گا تو سمجھ آجائے گا ۔
چیف جسٹس صاحب نے جنگ میں شائع ہونیوالی جس خبر پر برہمی کا اظہار کیا وہ خبر صرف جنگ ہی میں نہیں ملک کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پر شائع اور نشرہوئی۔۔۔۔ہم یہاں پر یہ بھی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جنگ میں شائع ہونیوالی خبر کے مقابلے میں ملک کے بعض اخبارات نے جو خبریں شائع کیں وہ زیادہ پر زور طریقے سے شائع کی گئیں۔ حقیقت ہے کہ صرف انہی کو طلب کیا گیا اور دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذمہ داران کے خلاف نہ نوٹس لیا گیا اور نہ ہی ان کو بلایا گیا۔۔اس کا رکارڈ ہمارے پاس موجود ہے ۔
چیف جسٹس صاحب طلب کریں گے تو پیش کردیا جائیگا ۔میڈیا سے گفتگو جس پر چیف جسٹس صاحب کو اعتراض بھی ہوا اور سپریم کورٹ کے ترجمان کی طرف سے وضاحت بھی جاری کی گئی ۔اس وضاحت کو بھی جنگ میں نمایاں طور پر شائع کیا گیا ۔۔چیف جسٹس صاحب سے عرض کرنا چاہیں گے کہ کچھ عرصہ قبل بھی جنگ /جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن صاحب کو توہین عدالت کا نوٹس ملا ۔جس خبر پر ان کو توہین عدالت کا نوٹس دیا گیا وہ خبر تمام اخبارات میں بھی شائع ہوئی لیکن نوٹس صرف میر شکیل الرحمٰن صاحب کو ملا جبکہ بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز جنہوں نے مذکورہ خبر شائع کی تھی ان کے ذمہ داران کے خلاف نہ کوئی ایکشن لیا گیا نہ کوئی نوٹس۔
ماضی قریب میں اس طرح کا نوٹس جاری ہوا تھا اس میں ایک حصہ جس پر اعتراض تھا وہ دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا تھا مگر نوٹس صرف شکیل الرحمان کو دیا گیا جب کہ دی نیوز میں صحیح خبر شائع ہوئی تھی مگر نوٹس میں دی نیوز کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔