17 فروری ، 2018
فلم ’مان جاؤ نہ‘ کا نام ’بھاگ جاؤ نہ‘ ہونا چاہیے تھا۔ کب کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ کون کس کیلئے کیا کر رہا ہے؟ اور کہاں ہو رہا ہے؟ فلم دیکھنے کے بعد بھی ان سوالات کی ”کھچڑی“آپ کو پکاتی رہے گی۔
یہ کھچڑی آپ کو بھی کھلائیں گے لیکن پہلے کچھ مثبت پہلوؤں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔
فلم کی سب سے اچھی بات شاید فلم کی ہیروئن تھیں جو ہمارے لیے مہمان بھی ہیں وہ جہاں جہاں ’کیژول‘ نظر آئیں اسکرین پر بہت خوبصورت لگیں لیکن جہاں ان کو شادی والے کپڑے پہنا کر تیار کرایا گیا وہاں ان کی دلکشی ماند پڑگئی۔
ایلناز نوروزی میں اسٹائل تھا لیکن مکالمے ادا کرنے میں وہ محدود تھیں ساتھ میں رقص میں بھی ابھی کافی پیچھے ہیں۔ ایلناز کے ہیرو عدیل چوہدری نے اداکاری اچھی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایلناز کے ساتھ اتنے اچھے نہیں لگے جو شاید بلال اشرف لگتے شاید ایلناز کے لمبے قد کی وجہ سے اسکرین پر ہمیں ایسا لگا ہو۔
فلم میں اگر پرفارمنس تولی جائے تو سب سے زیادہ وزن ایاز سموں کی بے ساختہ اداکاری میں ہے اور وہی شاید اس فلم کے مین آف دی میچ ہیں لیکن یاد رہے ان کی باقی ٹیم اسکرین پر کافی کمزور رہی اور میچ بھی ہار گئی۔ فلم کی عکاسی بھی فلم کے کیمرا مین یا ڈی او پی کو اچھے کھلاڑیوں میں شامل کرتی ہے۔
اب آپ کو بتاتے ہیں فلم کا نام ’بھاگ جاؤ نہ‘ کیوں ہونا چاہیے تھا۔ فلم شروع ہی تیزی سے ہوتی ہے کچھ ایسے کریڈٹس آتے ہیں جو سمجھ میں بھی نہیں آتے اور فلم شروع ہوجاتی ہے اور آپ کے ذہنوں میں سوالات کی کھچڑی۔ ایلناز جس کی انٹری زوردار ہونی چاہیے تھی باقی تینوں کریکٹرز سے کمزور ہوتی ہے اور گانے میں ایلناز کے سین ہی سب سے کم ہوتے ہیں۔
رنگوں سے بھرپور گانا جو شاید ’بلم پچکاری‘ سے متاثر ہو کر بنانے کی کوشش کی گئی کمزور ڈانس کی وجہ سے اثر بنانے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اب پہلیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایلناز کا لہجہ پنجابی گھرانے میں رہنے کے باوجود ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایلناز کے پاپا بالکل اردو اسپیکنگ اور پھپھو مکمل پنجابی دکھائیں گئی۔
پھپھو کے ساتھ ایسا کیا ہوتا ہے جو ایلناز شادی سے چڑ جاتی ہے وہ دو بار سمجھانے کے باوجود شاید ہی کسی کو ”رجسٹرڈ“ ہوا ہو۔ آصف رضا میر کو ”سافٹ پاپا“ دکھایا گیا ہے جو بیٹی کیخلاف اچانک سخت اور بیٹی کیلئے ہی اچانک پنجاب کا گھبرو”گجر“ بن جاتا ہے لیکن کسی بھی ایکشن سے کوسوں دور رہتا ہے۔
علی گل پیر کا پورا سیکوئنس ٹھونسا ہوا لگتا ہے اور ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے جس سے سندھی فلم بین کو کھینچنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ایسی ہی ایک اور کوشش جو پنجاب کے فلم بینوں کیلئے لکھی گئی لیکن ریلوے اسٹیشن پر بری طرح فلاپ ہوئی۔
نیئر اعجاز جیسے سینئر اداکار کا کریکٹر کیا تھا ؟کیوں تھا؟ کہاں سے آیا؟ کہاں چلا گیا؟ فلم کا ’ولن‘ ایکشن سین کے بعد کہاں چلا جاتا ہے؟ ساحل پر دوستوں کے ساتھ آنے والی لڑکی سمندر میں ڈوب کر صرف عدیل کو بچانے کا موقع فراہم کرتی ہے؟ پھر این جی او کا سسپنس ڈرامہ آجاتا ہے؟ پھپھو بھی غائب ہوجاتی ہیں؟پھر اچانک محبت کی تکون شروع ہوتی ہے اور وہ وہ ہوجاتا ہے جو دی اینڈ کیلئے ضروری ہوتا ہے اور آپ کم سے کم بیس پچیس مشہور فلموں میں دیکھ چکے ہونگے۔
اس سے پہلے عدیل اور آصف رضا میر کا گٹھ جوڑ جو سامنے آتا ہے وہ بھی راز ایسے کھلتا ہے جو صرف ایلناز کو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ فلم دیکھنے والے وہ چھوٹے فونٹ کے میسجز پڑھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
فلم میں ایک طرف گانوں کیلئے صرف کپڑوں کیلئے ہی کافی پیسہ خرچ کیا گیا لیکن دوسری طرف لوکیشن پر پیسہ بچانے کی کوشش کی گئی۔
فلم کی کہانی بہت زیادہ ’ذہین‘ لوگوں کیلئے لکھی تو نہیں لیکن ”جوڑی“ ضرور گئی ہے جو اس رومانٹک کامیڈی فلم کی گتھیاں اور سِرے کسی سسپنس مسٹری کی طرح سلجھاتے اور ملاتے رہیں گے لیکن پھر بھی ناکام رہیں گے۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کیلئے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے، جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
اپنی رائے کا اظہار کرتے جائیں: