بلاگ
Time 21 فروری ، 2018

لاڈلوں کا لاڈلا

وہ انتہائی چالاک اور ہوشیار ہیں۔ بڑی ہوشیاری کے ساتھ پوری ٹیم کی جیت کو اپنے نام کردیا۔ پھر بڑی ہوشیاری کے ساتھ ورلڈکپ کی جیت کو اسپتال بنانے کیلئے اور پھر اسپتال کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سیاست کے لئے استعمال کیا ۔جب سے سیاست میں آئے ہیں، وزیراعظم بننے کی خواہش میں سہاروں کی تلاش میں ہیں ۔ جنرل حمید گل کی انگلی پکڑ کر سیاست میں آئے۔

پرویز مشرف کے دست شفقت کو اپنے سر پر سجانے کے لئے امریکہ کا اتحادی بننے کے ان کے فیصلے کو سراہا اور ریفرنڈم میں بے شرمی کی حد تک ان کی حمایت کی۔ ایک اور جرنیل کے کہنے پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ۔اور عرصہ ہوا کہ امپائر کی انگلی پر سیاسی سرکس میں مصروف ہیں لیکن بعض لوگ اب بھی مصر ہیں کہ انہیں سیدھا سادہ، خود دار اور اپنی سوچ کا مالک مانا جائے اور ماننا پڑتاہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

ان کی جماعت کے بانی رکن اور ماضی کے قریب ترین دوست اکبر ایس بابر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے تھک گئے ۔ وہ پارٹی فنڈز اور بیرون ملک سے آئی ہوئی رقوم کا حساب مانگ رہے ہیں لیکن چار سال گزرنے کے باوجود لاڈلا حساب پیش کرنے کو تیار نہیں۔ پھر بھی وہ محتسب اعلیٰ بنے پھررہے ہیں اور کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ انہیں محتسب اعلیٰ مان لیا جائے ۔ اور ماننا پڑتا ہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

وہ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے لئے مشہور ہیں ۔ کبھی ایک کو غدار کبھی دوسرے کو غدار کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ سیاست کے میدان میں ان کی کامیابی کا پہلا خواب ہنری کسنجر نے دیکھا تھا۔پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں وہ یہودی امیدوار کی مہم چلاتے نظر آتے ہیں ۔ اب بھی لندن میں گولڈا سمتھ کے گھرانے میں ان کے بیٹے ان کی سیاسی جانشینی کے لئے تیار ہورہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا اصرارہے کہ صرف ان کو محب وطن مانا جائے اور ماننا پڑتا ہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

وہ اپنے گھر والوں کے کتنے وفادار ہیں وہ تو سب جان چکے ۔ اپنے کسی عزیز سے ان کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ ان کی سوچ ذات سے شروع ہوتی اور ذات پر ختم ہوتی ہے۔ اب جو شخص گھر والوں کا وفادار نہیں ، وہ گاؤں کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے ۔ جو گاؤں کا نہیں وہ شہر یا ملک کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ انہیں ہی وفادار مانا جائے اور ماننا پڑتاہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

اس قدر بانی ایم کیو ایم نے بھی اپنے پارٹی رہنماؤں کو غلام نہیں بنایا تھا جس قدر انہوں نے بنا رکھا ہے۔ وہ دن کو رات کہیں یا رات کو دن، ان کے ترجمان وہی کچھ ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ان سے شیخ رشید کو بے عزت کرواتے ہیں اور دوسرے دن ان کو شیخ رشید کی اقتدا میں کھڑے کرلیتے ہیں۔ کبھی ان کو عون چوہدری کی قدم بوسیوں پر مجبور کراتے ہیں اور کبھی جہانگیر ترین کی ۔ مجال ہے کوئی چوں بھی کرے اور جس نے بھی چوں چرا ں کرنے کی کوشش کی تو اسے ذلیل کرکے باہر پھینکنے میں دیر نہیں لگائی لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ انہیں جمہوریت کو چیمپئن مانا جائے اور ماننا پڑتا ہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

انہوں نے گزشتہ انتخابات کے دوران پنجاب کے چار حلقوں میں دھاندلی کا واویلا بلند کرکے چار سال تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔ لیکن خود ان کےپارٹی انتخابات کے دوران بدترین دھاندلی ہوئی اور اس کی گواہی خود ان کی پارٹی کے الیکشن کمیشن کے سربراہ نے دی لیکن دھاندلی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کو فارغ کردیا ۔تاہم وہ پھر بھی دھاندلی کا رونا رورہے ہیں اور کوئی اس حوالے سے ان کا منہ بند کرنے والا نہیں ۔اور ان کا منہ بند نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں ۔

وہ کبھی ایک کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرے کے ۔ دن رات وہ احتساب احتساب کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں انہوں نے احتساب کو جو مذاق اڑایا ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔قانون خود بنایا اورپھر اپنے کرکٹ کے دنوں کے دوست کو ڈی جی احتساب نامزد کیا ۔ ان کے احتساب کمیشن نے اے این پی حکومت کے کسی کرپٹ کو پکڑا نہ پی پی پی حکومت کے۔

پکڑا تو ایک پرویز خٹک کے نوشہرہ میں سیاسی مخالف کو اور دوسرے ان سے اختلاف کی جرات کرنے والے وزیر ضیاء اللہ آفریدی کو ۔ پھر جب وہ ان کے چہیتوں پر ہاتھ ڈالنے لگے تو ان کو فارغ کردیا۔ ڈھائی سال ہوگئے اور نیا ڈی جی احتساب کمیشن تک مقرر نہ کرسکے ۔ پرویز خٹک نے اپنے ایک چہیتے کو قائمقام بنا رکھا ہے ۔ اپنے صوبے میں یہ حالت ہے لیکن وہ پھر بھی دن رات دوسروں کے احتساب کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن کوئی اینکر ان سے سوال نہیں کرتا کہ خیبر پختونخوا میں احتساب کا یہ حشر کرنے کے بعد احتساب کا نام لیتے ہوئے کیا ان کو شرم نہیں آتی ۔تاہم کوئی ان سے یہ سوال نہیں کرے گا کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں ۔

اس ملک میں ٹریفک کا اشارہ توڑنے والے کے خلاف کارروائی ہوتی ہے لیکن وہ سول نافرمانی کا اعلان کرنے کے بعد بھی دندناتے پھررہے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ پر حملے کروائے اور عدلیہ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ججوں اور جرنیلوں کے بارے میں جو زبان انہوں نے استعمال کی ، وہ کوئی کسی وکیل یا سپاہی سے متعلق بھی استعمال کرے تو بچ نہیں سکتالیکن ان کے بارے میں کبھی قانون یا کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے وہ ہم جیسا عام پاکستانی تو نہیں بلکہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں ۔

الحمد للہ ان کے پیٹ میں ان کی اپنی کمائی کا نوالا نہیں جاتا ۔ تاثر ہے کہ کچھ خرچے جہانگیر ترین اٹھاتا ہے، کچھ اعظم سواتی ، کچھ علیم خان اور کچھ اسی طرح کے دوسرے کھرب پتی۔ مشہور ہے کہ جہاز ایک کا استعمال ہوتا ہے ، بلٹ پروف گاڑی کسی اور کی جبکہ کچن کا خرچہ کوئی اور اٹھاتا ہے ۔ وہ پارٹی عہدے دیتا ہے تو دولت کی بنیاد پر ۔ سینیٹ کے ٹکٹ دیتا ہے تو دولت کی بنیاد پر ۔ نئے آنے والے دولتیوں کو اٹھاتا اور پرانے نظریاتی ساتھیوں کو ان کے قدموں میں بٹھاتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ انہیں امین مانا جائے اور انہیں امین ماننا پڑتا ہے کیونکہ وہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں اتنا جھوٹ پرویز خٹک نے بھی نہیں بولا جتنا وہ بولتے رہے۔ جھوٹ بولتے رہے کہ خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کے ذریعے ایک ارب سے زائد پودے لگائے گئے لیکن اب پتہ چلا کہ پچاس کروڑ بھی نہیں لگے جبکہ غریب صوبے کے اربوں روپے کرپشن کی نذر ہوئے۔

پولیس کے بارے میں ان کے مسلسل جھوٹ کا پول تو شریفاں بی بی، اسما اور عاصمہ رانی کے کیسزنے کھول دیا۔ جلسوں میں اعلان کرتے پھررہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں سرکاری اسکولوں کی کارکردگی اتنی بہتر ہوئی ہے کہ ایک لاکھ بچے پرائیوٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں منتقل کئے گئے حالانکہ میں بطور چیلنج کہہ رہا ہوں کہ وزیرتعلیم ایسے ہزار بچے بھی نہیں دکھاسکتے۔ الٹا سرکاری اسکولوں کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال میں میٹرک کے امتحانات میں سرکاری اسکولوں کی بدترین کارکردگی کا پشاور ہائی کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا پڑا ۔ اب اس قدر جھوٹ بولنے والے کے بارے میں کچھ لوگ مصر ہیں کہ انہیں صادق مانا جائے ۔اور ماننا پڑتا ہے کیونکہ وہ نوازشریف نہیں بلکہ لاڈلوں کا لاڈلا جو ہیں۔

سینئر صحافی سلیم صافی کا کالم 21 فروری کےروزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔