22 فروری ، 2018
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سندھ حکومت عوامی مسائل کے حوالے سے اس حد تک بے حسی کا مظاہرہ کرے گی کہ اندرون سندھ معصوم بچے اور بڑے بھوک اور افلاس سے مرتے جائیں گے اور عوامی نمائندے ٹھنڈی گاڑیوں، عالیشان بنگلوں اور کارپیٹڈ دفتروں میں خوش گپیوں میں مصروف رہیں گے۔
میں جب بھی کسی وزیر، مشیر یا رکن اسمبلی سے ملنے ان کے گھر یا دفتر گیا تو وہاں کی قیمتی اشیاء اور تزئین و آرائش دیکھ کر حیران ہوتا تھا، ان کا رہن سہن دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں جن کی شان و شوکت دیکھ کر غربت میں گھری عوا م کا ان کے رعب میں آ جانا قطعی غلط نہیں۔
میں حیران ہوں کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آجاتی ہے؟ کیا یہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ہیں؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنے دولت مند کیسے ہو جاتے ہیں؟ کیوں کر یہ ایک پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس ایسا کون سا فن ہے جو عام پاکستانی کو نہیں معلوم۔
ان ارکان اسمبلی کی شان و شوکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے حلقے کے عوام بہت آسودہ حال اور بے فکر زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ ان کے حلقوں کے عوام کے پاس رہنے کو مناسب گھر، اچھی خوراک، معیاری تعلیم و صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات میسر ہوں گی۔
لیکن افسوس کہ پاکستانی عوام ارکان اسمبلی کے بلکل بر عکس زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے قیمتی ووٹوں سے منتخب ہوتے ہی ان کے نمائندے ان ہی کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ عوام کے لیے ان سے ملاقات صرف انتخابات کے دنوں میں ہی ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ وہ ان کی شکل 5 سال میں چند دن ہی دیکھتے ہیں۔
الیکشن ہوتے ہی ارکان اسمبلی سے عوام کی ملاقات کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور وہ گدھے کے سر سے سینگ کی مثل غائب ہو جاتے ہیں۔ میں جتنا سوچتا ہوں میرا ذہن اتنا الجھتا چلا جاتا ہے۔
یہ کہانی پاکستان کے گھر گھر کی کہانی ہے۔ چھوٹا قصبہ ہو یا کوئی بڑا شہر، ہر جگہ عوام انہی مسائل سے دوچار ہے۔ شاید اب لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں یا انہوں نے منتخب نمائندوں سے امید لگانا چھوڑ دی ہے۔ میں اسے عوام کا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتا مگر پانی سر سے اتنا اونچا ہو رہا ہے کہ میرے لیے اب چپ رہنا ایک گناہ ہو گا۔
شاید سندھ کے صحرائے تھر کا باسی ہونے کی وجہ سے میں یہاں کے لوگوں کا درد زیادہ محسوس کرتا ہوں لیکن آپ بھی یہ جان کر ضرور حیران ہوں گے کہ کئی برسوں سے تھری باشندوں کے لیے غذا کا حصول بھی ناممکن ہو گیا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے اپنے آپ میں مشغول ہیں۔
سندھ اسمبلی کے کسی اجلاس میں تھری افراد کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے کسی نے بات نہیں کی۔ اگر کبھی کی بھی تو یہاں کے لیے جاری ہونے والے فنڈز کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں غائب کر دیا گیا۔
تھر کے کا صحراء کا شمار عالمی شہرت یافتہ صحراوں میں ہوتا ہے لیکن تھری باشندے زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم غربت کی سطح کی تہہ میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے بچے غذا کی کمی سے مر رہے ہیں اور ان کے علاقے کے ارکان اسمبلی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اور ایسا کیوں نا ہو جب ان سے علاقے کے عوام کے حالات کا پوچھنے والا جو کوئی نہیں۔ پھر ان کی آرام دہ رہائش میں تھری باشندوں کی نہایت سخت زندگی کا تذکرہ رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے اور بھنگ سے سندھ کے عوام خوب واقف ہیں۔
تھری باشندے بجلی، گیس، ذرائع آمدورفت، پکے گھر تو کیا پینے کا صاف پانی، تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس سے بھی محروم ہیں۔ ان کے مرد اور بچے ننگے بدن رہنے کے شاید عادی ہو گئے ہیں کیوں کہ انہیں ان سہولیات سے آگاہی تو دور کی بات انہوں نے تو کبھی اس کا ذکر بھی نہیں سنا۔
تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود تھر کے صحرا میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ اب تک نہیں رک سکا ہے یہاں غذائیت کی کمی، قبل از وقت پیدائش، وزن کی کمی اور دیگر امراض کے سبب بچوں کی اموات میں کوئی کمی تو نہیں ہو سکی البتہ سردی میں اضافے نے ان بچوں کی اموات میں مذید اضافہ کر دیا ہے۔
صحرائے تھر میں شدید سردی کی لہر نومبر کے آغاز سے جاری ہے اور محکمہ صحت تھر پارکر کے مطابق نومبر میں سول اسپتال مٹھی سمیت ضلع بھر کے سرکاری اسپتالوں میں کم از کم 41 بچے موت کی وادی میں چلے گئے۔
جبکہ دسمبر میں یہ تعداد بڑھ کر 46 سے زیادہ ہو گئی تھی۔ ان اعدادوشمار میں اپنے گھروں میں وفات پانے والے بچے شامل نہیں جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق اتنی ہی ہے کیوں کہ ان لوگوں کے پاس اسپتال تک پہنچنے کے لیے نا تو پیسے ہیں اور نا ہی ذرائع آمدو رفت اس طرح صرف ان دو ماہ کے دوران سینکڑوں تھری معصوم بچے زندگی کی جنگ ہار گئے۔
یہ ایک انتہائی تشویشناک صورت حال ہے تھر میں صحت جیسی بنیادی سہولیات میسر نا ہونے یہاں کی خواتین کے لیے زندگی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس علاقے کی خالی نشتوں پر خواتین ڈاکٹر اور نرسیں تو نوکری پر رکھ لی جاتی ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس علاقے میں تربیت یافتہ خواتین معالج بالخصوص زنانہ امراض کی ماہر ڈاکٹر (گائنا کالوجسٹ) موجود نہیں ہیں۔
ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی میں صرف دو گائنا کالوجسٹ ہیں جبکہ ڈیپلو، چھاچھرو ننگر پارکر، ڈاہلی، اسلام کوٹ کلوئی تحصیلوں کے سرکاری اسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ سرے سے موجود ہی نہیں۔
اس عظیم صحرائی علاقے میں خاتون ڈاکٹروں کی تعداد بھی برائے نام یا پھر نا ہونے کے برابر ہے۔ ضلع بھر کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی کمی بھی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔
محکمہ صحت کے اہلکار کہتے ہیں کہ یہاں کے اسپتالوں میں بجٹ کی کمی کے سبب کسی بھی ہنگامی صورت حال میں مریضوں کو سول اسپتال مٹھی سمیت ضلع بھر کے سرکاری اسپتالوں سے بڑے شہروں کو منتقل کئے جانے کے لیے مفت ایمبولنس سروس کی سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے۔
سول اسپتال مٹھی کے سول سرجن ڈاکٹر امیر حیدر شاہ نے دعویٰ کیا کہ اسپتال سے مریضوں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کی جاری ہیں اور نئے ڈاکٹر بھرتی کئے گئے ہیں جن کی تعیناتی کے بعد صورت حال میں بہتری کی امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سرکاری ڈاکٹر اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوں تاہم انہوں نے اقرار کیا کہ سول اسپتال مٹھی میں صرف دو گائناکالوجسٹ ہیں۔
ڈاکٹر امیر حیدر کا کہنا ہے کہ تھر میں بچوں کی اموات میں اضافے کی وجہ غذائیت کی کمی سے کہیں زیادہ موسمی بیماریاں اور زچگی کے دوران پیچیدگیاں ہیں۔
ضلع تھرپارکر میں سردی کی شدت بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہاں کے بچے غذائیت کی کمی، قبل از وقت پیدائش اور وزن کی کمی میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کی قوت مدافعت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے جس سے ان میں موسم کی سختی برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں میں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
رواں موسم سرما کے ابتدائی دو ماہ کے دوران سرکاری اسپتالوں میں جاں بحق بچوں کی تعداد کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں جاں بحق بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ میڈیا صرف ان اموات کو رپورٹ کیا جاتا ہے جن کی سرکاری سطح پر تصدیق ہوتی ہے جبکہ ان اموات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا جو بڑے اسپتالوں میں منتقلی کے دوران راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔
ضلع تھر پارکر 21 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں 300 رجسٹرڈ اور تقریبا 5000 غیر رجسٹرڈ دیہات ہیں۔ ذرائع آمدورفت نا ہونے کی وجہ سے بیشتر دیہات تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
زمینی ساخت ریگستانی علاقہ ہونے کے ناطے اس علاقے کے کچے ریتلے راستوں پر میلوں کا سفر مخصوص گاڑیوں کے علاوہ ناممکن ہے اور یہ وجہ ہے کہ بیمار بچوں کی کسی قریب ترین اسپتال منتقلی بھی ناممکن ہے۔
ایسے دیہات میں جاں بحق بچوں کی اموات کا بھی کوئی باقاعدہ ریکارڈ تو موجود نہیں تاہم علاقہ مکینوں کے مطابق مرنے والے بچوں کی تعداد سرکاری اسپتالوں میں دم توڑنے والے بچوں سے کہیں زیادہ ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
تھر میں معصوم بچوں کی اموات افسوسناک ہی نہیں لمحہ فکریہ بھی ہے اور عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ حکومت کی جانب سے مستقل بنیادوں پہ کوئی بھی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس سے تھری عوام کی زندگی میں بہتری کے ساتھ بچوں کی اموات میں کمی آ سکے۔