سینیٹ الیکشن : سیاسی جماعتوں کے ڈسپلن کا امتحان

سینیٹ انتخابات اس لحاظ سے اہم ہیں کہ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت تمام تر افواہوں اور خدشات کے باوجود اس مرحلے تک آ پہنچی ہے۔چار سال تک اقتدار میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن سینیٹ میں اکثریتی پارٹی نہیں رہی ۔ ان انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ ن لیگ برتری حاصل کرتے ہوئے سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی اور پارٹی پالیسی کے مطابق قانون سازی میں یہ بڑی رکاوٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ اٹھارہ سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلز پارٹی سینیٹ میں کمزور حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی نظر آئے گی۔

اس مرتبہ ممبران صوبائی اسمبلی کیلئے سینیٹ الیکشن اس لئے بھی اہم ہیں کہ آنے والے چند ماہ میں عام انتخابات ہوں گے اور اپنی انتخابی مہم کیلئے فنڈز کے انتظام کا بڑا ذریعہ یہی الیکشن ہیں، حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی اسکیموں کا اعلان اور فنڈز کی فراہمی ہو یا دوسری جانب آزاد امیدواروں کی حمایت پر ملنے والا انتخابی فنڈ، دونوں صورتوں میں ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر اپنے اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس صورتحال میں ہر صوبے کی سیاسی و انتخابی صورتحال کا جائزہ دلچسپی کا حامل ہے۔

پنجاب میں ن لیگ کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور اس کے ایم پی ایز 315 ہیں جبکہ سامنے صرف 53 ارکان کی اپوزیشن ہے اور یہ اپوزیشن بھی منقسم نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومتی پارٹی میں بغاوت کا خطرہ بھی موجود ہے ۔ پانچ مخصوص نشستوں پر ن لیگ کی کامیابی کا امکان ہے ۔ سات جنرل نشستوں پر کامیابی کے لئے تقریباً 53ووٹ فی نشست درکار ہوتے ہیں لیکن پارٹی کی سیٹوں اور حالات کو دیکھ کر ایم پی ایز کے گروپ بنائے جاتے ہیں ۔ 2012 کے سینیٹ الیکشن میں پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے ممبران کی بھی قابل ذکر تعداد تھی اس لئے ن لیگ نے جیت یقینی بنانے کیلئے 50 سے55 ایم پی ایز کے گروپس بنائے ہیں۔ اس الیکشن میں ذوالفقار کھوسہ نے 54 ، ایم حمزہ نے53 اور باقی ن لیگی امیدواران نے پچاس سے زیادہ ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ۔

2015 کے سینیٹ الیکشن میں چونکہ ن لیگ کے سامنے اپوزیشن کا خطرہ نہیں تھا اس لئے 40 سے45 ایم پی ایز کے گروپس بنائے گئے۔اس الیکشن میں ن لیگ کے امیدواروں نے 41 سے 44 ووٹ لیکر ہی کامیابی حاصل کر لی۔

اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے شاہ دماغوں کا امتحان ہے کہ ایم پی ایز کے گروپس کس طرح بنائے جائیں تاکہ بغاوت کے امکان کا سامنے رکھتے ہوئے بھی جیت کو یقینی بنایا جائے۔ پچھلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن خاموشی سے 27 ووٹ لے گئے، اگرچہ وہ ہار گئے لیکن اس بات کو زیر بحث لایا گیا کہ کن دس ایم پی ایز نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالا۔

خیبر پختونخوا میں مقابلہ زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ یہاں تحریک انصاف کی حکومت کے 80ایم پی ایز کے سامنے اپوزیشن کے 43ایم پی اے ہیں، اس لئے یہاں تحریک انصاف کو کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنے ممبران کی وفاداریوں کا خیال بھی رکھنا ہو گا اور ساتھ ساتھ ممبران کے گروپس بنانے میں بھی احتیاط کرنا ہوگی۔

……………..

پچھلی مرتبہ تحریک انصاف اور ان کے اتحادی امیدواروں نے 15سے18 ووٹ حاصل کئے اور جیت گئے جبکہ ن لیگ کے صلاح الدین ترمذی نے 14 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔

خواتین کی سیٹ پر پی ٹی آئی کی ثمینہ عابد 66 ووٹ لیکر کامیاب ہوئیں اور اے این پی کی ستارہ ایاز 30 ووٹ لیکر جیت گئیں، اگر تحریک انصاف بہتر منصوبہ بندی کرتی تو انہی ووٹوں میں وہ دو خواتین سینیٹرز با آسانی منتخب کروا سکتے تھے ۔

گزشتہ الیکشن میں بھی دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے پورادن پولنگ شروع نہ ہو سکی اور رات نو بجے پولنگ کا آغاز ہوا، یہ بھی سننے میں آیا کہ گورنر اور وزیراعلی ٰکے مذاکرات بھی ہوئے اور پھر انڈر اسٹینڈنگ کے بعد پولنگ شروع ہوئی۔ پولنگ کے حوالے سے افواہیں گردش کرتی رہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے والا پہلا ایم پی اے اپنی خالی پرچی بیلٹ باکس میں ڈالے بغیر باہر لے آتا اور پارٹی ہدایت کے مطابق پرچی لکھی جاتی اور اگلا ایم پی اے وہ ووٹ کاسٹ کر دیتا اور اپنی خالی پرچی باہر لے آتا ۔اس طرح سے سیاسی جماعتوں نے اپنی کامیابی کو یقینی بنایا۔

سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی بہتر پوزیشن میں دیکھائی دے رہی ہے ۔یہاں حکومتی ایم پی ایز 93ہیں اور انہیں اپوزیشن کے 70 ووٹوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان 70 ممبران میں اکثریت ایم کیو ایم کے ساتھ نظر آتی ہے اور یہاں ہی ایم کیو ایم کا امتحان بھی ہے کہ کیا وہ اپنے ارکان کو متحدہ پاکستان کی پالیسی کے مطابق ووٹ کاسٹ کروا سکیں گے ، کیونکہ کئی ایم پی ایز پیپلز پارٹی اور پاک سر زمین پارٹی سے رابطے میں بھی ہیں ۔

سیاسی جماعتوں کی گرفت میں کمزوری ہر صوبے کی طرح یہاں بھی ہے اسی لئے سینیٹ کے پارٹی امیدواروں کو اپنے لئے خود بھی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے تاکہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے ۔

2012 میں مصطفی ٰکمال کو ایم کیو ایم کے 26 ووٹوں نے کامیابی دلائی جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے 21 اور22 کے گروپ بنا کر کامیابی یقینی بنائی۔ 2015 میں یہ اوسط کم ہو کر 19 اور 20 ووٹوں تک آگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے اسلام الدین شیخ نے 24ووٹ حاصل کئے حالانکہ ان کے ایم پی ایز گروپ کی تعداد 21 تھی ۔ گزشتہ الیکشن میں پولنگ کے وقت بھی تحریک انصاف اور فنکشنل لیگ کے مذاکرات ہوتے رہے اور دو مرتبہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ووٹ ڈالنے سے روک لیا گیا تاکہ مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکیں لیکن آخر کار کامیابی نہ ہو سکی اور فنکشنل لیگ کے امام الد ین شوقین 13 ووٹ لیکر ہار گئے ،اب وہی پیپلز پارٹی سے امیدوار ہیں ۔ اس مرتبہ بھی سندھ اسمبلی میں خصوصاً ایم کیو ایم کو اپنے ممبران کے گروپس بہتر منصوبہ بندی سے بنانے ہوں گے ۔

بلوچستان اسمبلی میں حالیہ تبدیلی کے بعد حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے ممبران میں فرق خاصا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ وزیر اعلی ٰکی تبدیلی میں سب جماعتوں کے نمائندہ ارکان نے کھچڑی پکائی ۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے21 ممبران اسمبلی ہیں لیکن ان کی اکثریت نے بھی ق لیگ کے وزیر اعلی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

دوسرے نمبر پر پختونخواملی عوامی پارٹی 14 اور نیشنل پارٹی 11 ایم پی ایز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ مسلم لیگ ن نے یعقوب ناصر ، عبدالقادر بلوچ اور افضل مندو خیل پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے تاکہ ووٹرز کو متحد رکھنے کی کوشش کی جائے۔

اگر مسلم لیگ ن گزشتہ الیکشن کی طرح یہاں سے تین سیٹیں بھی حاصل کر لے تو یہی بڑی کامیابی ہو گی۔ اس صوبے میں سیاسی کھیل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اس اسمبلی میں صرف دو ایم پی ایز ہیں جبکہ پارٹی نے سینیٹ الیکشن میں تین رکنی کمیٹی بنا کر حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ کمیٹی میں سردار اختر مینگل ، جہانزیب جمالدینی اور ولی کاکڑ شامل ہیں۔ بلوچستان میں سات سے آٹھ ووٹوں کے ساتھ سینیٹ کی سیٹ پر کامیابی مل جاتی ہے ۔اسلئے امکان یہی ہے کہ آزاد امیدوار یہاں اپنا کھیل کھیلیں گے اور جیت کر پسندیدہ جماعتوں کا رخ کریں گے ۔

فاٹا کے 12 ارکان قومی اسمبلی نے ہی ہر مرتبہ چار سینیٹرز کو منتخب کرنا ہوتا ہے ۔ یہاں ایک غیر تحریری اصول اور معاہد ہ ہے کہ پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر فیصلے کئے جائیں گے ۔ فاٹا اراکین کے حوالے سے الزامات سامنے آتے ہیں کہ اس الیکشن میں پیسے کا استعمال بے تحاشا ہوتا ہے ، کہا جاتا رہا ہے کہ اس مرتبہ یہاں ایک ووٹ کا ’’نذرانہ‘ ‘ 20 کروڑ روپے سے بھی آگے جا چکا ہے لیکن اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتیں اور ممبران پارلیمنٹ متفقہ طور پر خاموش ہی رہتے ہیں۔

صوبائی اسمبلیوں کے جائزے کے بعد سینیٹ الیکشن میں ایک اوراہم نقطہ ترجیحی ووٹنگ کا ہے ۔ ہر ایم پی اے کو حق حاصل ہے کہ ایک ووٹ کے نیچے دوسری، تیسری ، چوتھی، پانچویں ترجیح پر بھی امیدواروں کو ووٹ کر سکتا ہے ۔

چونکہ سات جنرل سیٹوں کیلئے الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے اس لئے ایم پی اے ساتویں ترجیح تک امیدواروں کے ناموں کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تمام ترجیحاتی ووٹنگ کو گننے کیلئے مخصوص فارمولے سے مدد لی جاتی ہے۔ ان کی گنتی ایک پیچیدہ قانونی عمل ہے عموما پہلی ترجیح کا ایک ووٹ ہی کاسٹ کیا جاتا ہے لیکن دوسری، تیسری ، چوتھی ترجیح کے ووٹ سے واقفیت ہر رکن صوبائی اسمبلی کیلئے ضروری ہے ۔

اس کی اہم مثال 2012میں پنجاب سے آزاد امیدوار محسن لغاری کا کامیاب ہونا تھا، اس الیکشن میں اول ترجیح کے 46 ووٹ لینے والے امیدوار کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی کے اسلم گل کے 42 ووٹ تھے جبکہ محسن لغاری کو ترجیح اول کے 22 ووٹ ملے لیکن وہ اپنی مہم میں ایم پی ایز کو دوسری ، تیسری اور چوتھی ترجیح کا ووٹ اپنے حق میں کاسٹ کرنے کی درخواست کرتے رہے تھے اور جب ان کے ووٹوں کی گنتی ہوئی تودوسری ، تیسری اور چوتھی ترجیح کے ووٹ ملا کر ان کے ٹوٹل ووٹ 46 بنے اور کامیابی انکا مقدر ٹھہری۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اب آسان راستہ اختیار کیا گیا ہے ، ممبران صوبائی اسمبلی کو کہا جاتا ہے کہ صرف ایک نام کے سامنے ترجیح نمبر ایک لکھ کر ووٹ کاسٹ کر دیں اور باقی تمام ناموں کے آگے کچھ نہ لکھیں تاکہ کسی پیچیدگی کا سامنا کئے بغیر جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن اس بار امکان یہ بھی ہے کہ آزاد میدوار، باغی اور ناراض ارکان اس ترجیحی ووٹنگ کے حق کو اپنی جیت کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :