3 مارچ — جنگلی حیات کے تحفظ کا عالمی دن

بلوچستان قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ نادر و نایاب جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے، جس کا تحفظ متعلقہ حکام کے علاوہ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے۔

بلوچستان قدرتی وسائل سے تو مالامال ہے ہی، اس کےساتھ ساتھ یہ صوبہ نادر و نایاب جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے، مگر مختلف وجوہات کی بناء پر صوبے میں جنگلی حیات کے وجود اور بقا کو خطرات لاحق ہیں اور اس کے معدوم ہونےکا بھی خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بلوچستان کا وسیع وعریض لینڈ اسکیپ چٹیل اور ریتلے میدان، وسیع وعریض پہاڑی سلسلوں، جنگلات اور قابلِ دید طویل ساحل اور قدرتی آب گاہوں سے مزین ہے لیکن اس کی خاص بات اور انفرادیت یہ ہے کہ یہ سب نادر و نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

اس کے علاوہ بلوچستان سے ملحقہ ساحل اور سمندر خوبصورت سمندری حیات کا بھی مسکن ہے، اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھر میں اب تک پائے جانے والے 188 اقسام کے رینگنے اور دودھ پلانے والے جانوروں میں سے 71 اور ملک کے 666 اقسام کے پرندوں میں سے 356 بلوچستان میں پائے جاتے ہیں، جو کہ ملک کی جنگلی حیات کا بالترتیب 38 اور 53 فیصد بنتا ہے۔

فوٹو/ بشکریہ راشد سعید—۔

اس حوالے سے محکمہ جنگلی حیات کے کنزرویٹر شریف الدین بلوچ کا کہنا تھا کہ ابھی اس شعبے میں مزید کام ہونا باقی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی صوبے میں جنگلی حیات کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں، تاہم اس کا اندازہ اُسی وقت ہوگا جب پورے بلوچستان کا تفصیلی سروے کیا جائے۔

بلوچستان میں پائی جانے والی جنگلی حیات کی بہت سی خصوصیات اور انفرادیت ہے، یہاں کوئٹہ کے نواح کے پہاڑی سلسلے میں پایا جانے والا نایاب چلتن جنگلی بکرا جسے انگریزی میں چلتن وائلڈ گوٹ (chiltan wild goat)کہتے ہیں، بھی پایا جاتا ہے۔

کنزرویٹر شریف الدین بلوچ کے مطابق اس کی نسل صرف اسی علاقے میں موجود ہے، دنیا میں یہ نسل کہیں اور نہیں پائی جاتی۔

اس کےعلاوہ، سلیمان اور چلتن مارخور، اڑیال، چنکارہ، سیاہ ریچھ، مختلف قسم کےسانپ، پرندے، سبز کچھوے اور مگرمچھوں سمیت نادر سمندری حیات بھی یہاں پائی جاتی ہے مگر اس وقت ان سب کو شکار کےعلاوہ مختلف وجوہات کی بنا پر شدید خطرات لاحق ہیں اور ان میں سے کئی ایک کے معدوم ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

فوٹو/ بشکریہ راشد سعید—۔

اس حوالے سے کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات نے بتایا کہ اس وقت مجموعی طور پر موسمی تغیر و تبدیلی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خشک سالی سے بلوچستان میں موجود جنگلی حیات کی اقسام کو خطرات لاحق ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے رہنے کی جگہیں اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگلی حیات کو غیر قانونی شکار سے بھی خطرہ لاحق ہے، بلوچستان میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر پابندی عائد ہے، اگرچہ اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے، مگر اس پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کی بناء پر مختلف علاقوں میں غیرقانونی شکار کیا جاتا ہے، جو  اس کی بقاء کے لیے بہت نقصان دہ ہے، تاہم تشویش ناک بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت اس حوالے سے تقریباً بے بس نظر آتی ہے۔

فوٹو/ بشکریہ راشد سعید—۔

جب اس حوالے سے صوبائی وزیر ماحولیات پرنس احمد علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ صوبے میں جانوروں اور پرندوں کا غیرقانونی شکار ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جنگلی حیات کا تحفظ کرنا ہے، جس کے لیے ہمیں شکار پر مکمل پابندی عائد کردینی چاہیے۔

پرنس احمد علی نے مزید کہا کہ زیادہ دور نہ جائیں، ہمارے ہمسایہ ممالک میں تلور سمیت مختلف پرندوں اور جانوروں کے شکار پر پابندی عائد ہے اور وہاں اس کی اجازت نہیں ہے، مگر یہاں لوگوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔

انہوں نے عرب شیوخ کے بلوچستان میں شکار کرنے کا بھی حوالہ دیا، جنہیں کبھی وفاق اور کبھی صوبے کی جانب سے خصوصی طور پر شکار کی اجازت دی جاتی ہے، پرنس احمد علی کا کہنا تھا کہ اس طرح وائلڈ لائف کو ٹارگٹ کرنا بربریت اور ظلم کےسوا کچھ نہیں۔

فوٹو/ بشکریہ راشد سعید—۔

محکمہ جنگلی حیات بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں جنگلی اور سمندری حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، اس حوالے سے کوئٹہ کے نواح میں ہزار گنجی نیشنل پارک کے علاوہ لسبیلہ کے علاقے میں ہنگول نیشنل پارک قائم کیا گیا ہے۔

ہنگول نیشنل پارک پاکستان کادوسرا بڑا پارک ہے، اس پارک میں بلوچستان کا سب سے طویل دریا، دریائے ہنگول بھی گزرتا ہے۔ اس کےعلاوہ صوبے کے مختلف مقامات پر جنگلی حیات کے مسکن کے لیے 14 مقامات اور 4 شکار گاہوں کےعلاوہ 5 آب گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔

فوٹو/ بشکریہ راشد سعید—۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے تحفظ اور بقا کے لیے شعور و آگہی کے علاوہ بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے، بالخصوص محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے ڈائریکٹوریٹ کو وسائل فراہم کرکے مکمل فعال کیا جانا چاہیے، اس کےساتھ ہی محکمے کے متعلقہ شعبوں میں بھی زیادہ سے زیادہ آسامیاں پیدا کی جائیں کیوں کہ عملے کی کمی کی وجہ سے بھی مسائل کاسامنا رہتا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ یہ قدرت کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر ایک بار یہ ختم ہوگئی تو اسے دوبارہ نہیں لایا جاسکتا۔

جنگلی حیات کا تحفظ متعلقہ حکام کے علاوہ ہم سب کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے سب کو جنگلی حیات کے عالمی دن کے موقع پر ان کے بچاؤ کا عزم کرنا ہوگا، اسی طرح قدرت کی اس نادر و نایاب نعمت کا تحفظ اور بقاء ممکن ہوسکے گی۔