05 مارچ ، 2018
پچھلے ہفتے پاکستان نے جلدی جلدی قانون بدل دیا اور اب پاکستان میں قانوناً اس بات کی اجازت ہوگئی کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کسی ایسے فلاحی ادارے کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے جو اس کی فہرست پر موجود ہو۔
جیسا کہ حکومت نے حافظ سعید صاحب کے فلاحی ادارے فلاح انسانیت کے درجنوں دفاتر اور مدارس پر جلدی جلدی چھاپے مارے تاکہ دنیا پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم دہشت گردی کی روک تھام کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے ہپر دپڑ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے پیرس میں میٹنگ کے لئے ڈاکٹر میفتہ اسماعیل کو روانہ کیا تاکہ وہ ایف اے ٹی ایف پر یہ عیاں کرسکیں کہ پاکستانی حکومت دہشت گردوں کی کسی طرح بھی مدد نہیں کرتی مگر بات بنتی نہیں لگ رہی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان کے لئے گلے کا کانٹا بن گئی ہے۔
ڈاکٹر میفتہ یورپ میں ایک ہفتے تک ایف اے ٹی ایف کے ممبران کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان نے دنیا بھر میں اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر ٹیررازم فائننسنگ کے خاتمے کے لئے کتنے ٹھوس قدم اٹھائے ہیں۔ ابھی واپس آئے ہی تھے کہ اگلے ہی دن فرانس کے لئے روانہ کردیئے گئے۔ اس میٹینگ میں پاکستان کو 700 وفود بشمول آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک کے ممبران کے سامنے اپنی وضاحت پیش کرنا تھی ۔ لگتا یہ ہے کہ پاکستان کو ملکوں کی اس گرے لسٹ میں شامل کردیا جائے گا جہاں اینٹی منی لانڈرنگ پر توجہ کم ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے 2015 میں اعلان کیا کہ پاکستان ان 7 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے 2010 سے 2015 تک قابل تعریف قدم اٹھائے ہیں
ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) جسے گروپ مالیتی کارروائی (جی اے ایف آئی) یعنی d'action financière بھی کہتے ہیں۔
ایک بین الاقوامی حکومتی ایسوسی ایشن یا سوسائٹی ہے جو کہ 1989 میں جی 7 پیرس سمٹ (سربراہی اجلاس) کے بعد معرض وجود میں آیا۔
ایف اے ٹی ایف کو اس لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے منی لانڈرنگ کے طریقوں کا جائزہ لیا جاسکے اور اس کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ایک فریم ورک تشکیل دیا جاسکے تاکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی منی لانڈرنگ پر قابو پایا جائے۔
11/9 کے ہولناک واقعے کے بعد ایف اے ٹی ایف کی ذمہ داریوں میں اور اضافہ ہوگیا ہے اور ایف اے ٹی ایف کا مینڈیٹ جو کے صرف منی لانڈرنگ تک محدود تھا بڑھادیا گیا۔ 2004 تک اس میں کائونٹر ٹیررازم فائننسنگ کی 9 نئی سفارشات کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک طرح سے یہ بھی US patriot act اور یو این سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1373 کی ایک کڑی تھی جس میں دہشت گردوں کو مالی مدد کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
چند ایک ممالک کو چھوڑ کر تمام دنیا کی حکومتیں سفارشات کو اپنے ممالک میں لاگو کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ۔ ایف اے ٹی ایف نے 2015 میں اعلان کیا کہ پاکستان ان 7 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے 2010 سے 2015 تک اے ایم ایل اور ٹیررازم فائننسنگ کو روکنے کے لئے قابل تعریف قدم اٹھائے ہیں اس لئے پاکستان سمیت دیگر 7 ممالک ایف اے ٹی ایف کی مانیٹرنگ پروسیس سے مبرہ ہوں گے۔
پاکستان 2009 سے 2015 تک اس لسٹ میں شامل رہ چکا ہے اور نقصان اٹھا چکا ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستان کے عزیز دوست امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کو پھر سے اس لسٹ میں ڈالنے کی قرار داد پیش کردی ہے جس لسٹ سے باہر آنے کے لئے ہم نے بڑے پاپڑ بیلے تھے۔ غضب کی بات تو یہ ہے کہ اس قرارداد میں ہمارے بہترین دوست چین اور باقی ممالک نے بھی پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک لسٹ میں نام ہونے سے کیا ہوتا ہے؟
ماہرین کے مطابق پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے سے پاکستان سے ہونے والی ہر ٹرانزکشن کو اور بھی زیادہ جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہماری فنانشل کرائم کی روک تھام کی زبان میں ''Enhanced due diligence'' کہتے ہیں۔
یعنی جب بھی کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہے گا تو اس حوالے سے پہلے سے پوری تفصیلات بتا دینے پر بھی مزید سوالات کا سامنا کرنے پڑے گا۔
یہ کیوں؟ کس کے لئے؟ کیسے؟ کہاں سے؟ والے سوالات جو ایئر پورٹ پر پوچھے جاتے تھے اب بینکوں میں اور انداز میں پوچھے جائیں گے۔
پاکستان کا نام گرے لسٹ پر ہونے سے پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ کی رسائی اور مشکل ہوگی۔
دنیا بھر میں ٹریڈنگ کرنے کے لئے "ایل سی " یعنی لیٹر آف کریڈٹ کھلوانا اور مہنگا ہوتا جائے گا ، اور یوں باہر سے آنے والا مال مہنگا ہوجائے گا اور پاکستان سے مال باہر بھیجنا مشکل ہوجائے گا۔
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ دنیا بھر سے قرضہ لینا اور بھی مشکل ہوجائے گا جس کے بغیر پاکستان کا گزارا مشکل ہے۔ ہمارا شمار اس لسٹ میں ہوگا جس میں شمالی کوریا ، ایران ، عراق ، شام ، یمن اور ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان 2009 سے 2015 تک اس لسٹ میں شامل رہ چکا ہے اور نقصان اٹھا چکا ہے۔
پاکستان کا نام گرے لسٹ پر ہونے سے پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ کی رسائی اور مشکل ہوگی۔ آج غیر ملکی ذخائر بالکل کم رہ گئے ہیں ، بیرونی خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور جولائی میں الیکشن ہیں۔ اس لیے ہر پاکستانی کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ فرماتے ہیں یہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ میں سر جھکا کے کہنا چاہتا ہوں کہ احسن اقبال صاحب نے درست فرمایا ہے۔
اس بیان میں ایک دو جملوں کا اضافہ کرلیں "یہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ ہم ہر بار کی طرح دنیا پر الزام دھر کے کچھ خاص نہیں کریں گے۔ دنیا کو جو سوچنا ہے سوچے ہم صرف اپنی کرسی کے بارے میں سوچیں گے اور بس۔"
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔