09 مارچ ، 2018
عطاالحق قاسمی کا نام پاکستان کے ساتھ عالمی ادبی حلقوں کا جانا مانا نام ہے اور 5 دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط عطاالحق قاسمی کا صحافتی سفر ایک تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔
کالم نگاری ہو یا شاعری کا میدان، اردو ڈرامہ ہو، نثر ہو یا صحافت کی کوئی شاخ عطاالحق قاسمی کا نام نمایاں اور کام ان کی مکمل دسترس میں ہوتا ہے۔
ادب کے علاوہ قاسمی صاحب نے سفارت کاری بھی کی اور وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے، گریڈ 19 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ریٹائرڈ ہوئے۔
ان کے کیریئر کو دیکھتے ہوئے حکومت نے قاسمی صاحب کو چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے پر تعینات کیا لیکن حالات کچھ ایسے بنے کہ انہیں استعفیٰ دینا پڑگیا۔
سپریم کورٹ میں ان کی تقرری کو چیلنج کیا گیا اور کیس چلا تو ابتداء ہی میں میڈیا پر حیران کن معلومات سامنے آنے لگیں کہ عطاالحق قاسمی نے دو سال کے قلیل عرصے میں 27 کروڑ روپے سے زیادہ تنخواہ وصول کی۔
تاہم تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ان کی تنخواہ 15 لاکھ روپے ماہانہ تھی ، یعنی دو سال میں انہوں نے تنخواہ کی مد میں ایک کروڑ اسی لاکھ روپے وصول کیےلیکن ان کے کھاتے میں ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگراموں کے اخراجات، پروگرام کی تشہیر کا خرچہ، ان کے دفتری کاموں سے کیے جانے والے سفری اخراجات وغیرہ ڈال کر 27 کروڑ روپے بنا دیے گئے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی عہدے پر تقرری قانون کے مطابق ہونی چائیے اور سب کو ایک ہی پلڑے میں تولا جانا چائیے۔
میں سوچتا ہوں کہ کیا ریٹائرڈ جج صاحبان کو چیئرمین الیکشن کمیشن یا چیئرمین نیب نہیں لگایا جاتا؟ ،کیا افواج پاکستان سے ریٹائرڈ ہونے والے جرنیل اور وائس ایئر مارشل کو حکومتی اداروں کا سربراہ اور سفیر نہیں بنا دیا جاتا؟، گریڈ 21 یا 22 کے عہدے پر ریٹائرڈ ہونے والے بیوروکریٹ کو ممبر پبلک سروس کمیشن یا کسی دوسرے اہم عہدے پر تعینات کرکے نہیں نوازا جاتا؟۔
گزشتہ دنوں ایک ریٹائرڈ ایئرمارشل کو ڈی جی سول ایوی ایشن پر لگایا گیا لیکن بعد میں ادارے کے سینئر ارکان کی جانب سےان کے خلاف بدتمیزی کی شکایات پر عہدے سے ہٹادیا گیا۔
میری اس تمہید کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ حقائق پر توجہ دلانا ہے۔ میں خود اس بات کا حامی ہوں کہ اعلیٰ منصب پر ریٹائرڈ افسران کو تعینات کرنے سے سینئر اور قابل افسران کی حق تلفی ہوتی ہے۔
وہ جو سینیاریٹی میں سر فہرست ہوں اور ترقی پانے کی آس میں ہوں ان میں مایوسی کی لہر پھیل جاتی ہے جو ان کے کام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مقابلے کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کرنے کے بعد اپنے شعبے میں تجربہ رکھنے کے باوجود کسی ریٹائرڈ عہدیدار کا تعینات ہو جانا کسی طور درست اقدام نہیں۔
اس سے نا صرف سرکاری نوکری کی اہلیت کے حامل در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ دیگر طالب علموں میں بددلی کا باعث بھی ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں اگر صحافت میں 55 سالہ تحربہ رکھنے والے عطاالحق قاسمی کو چیئرمین پی ٹی وی لگانے کو قانون کے مطابق غلط فیصلہ قرار دیا جاتا ہے تو دیگر تقرریوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہوگا۔
حکومت کو فوری طور پر تمام ریٹائرڈ افسران کی جگہ حاضر سروس افسران کو تعینات کرنا چاہیے تاکہ ترقی کی اہلیت رکھنے والے افسران میں اعتماد پیدا ہو اور ساتھ ہی نئی آسامیوں کے لیے جگہ بھی بنے۔
عطاء الحق قاسمی کی دوسالہ تقرری کی چھان بین تو کی جارہی ہے لیکن یہ اقدام کسی ایک شخصیت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے پہلے ہونے والی مختلف اہم تعیناتیوں کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اب تک تعینات ہونے والے ریٹائرڈ افسران کو کیا میرٹ کے مطابق بھرتی کیا گیا اور ان پر حکومتی خزانے کو کتنا نقصان پہنچا۔
عطاء الحق قاسمی کے ساتھ کسی مبینہ زیادتی سے گریز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ پوری دیانتداری سے ہو۔ ساتھ ہی سرکاری ٹی وی میں وزیروں کی سفارش سے رکھے یا رکھی جانے والے دیگر افراد کی بھی چھان بین ہونے چاہیے کہ ان کو کن بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اور لاکھوں میں تنخواہ کیوں دی گئی؟
پھر ان کو بھرتی کرنے والوں اور تمام پروگرام اور پروموز کے پیسوں کا بھی حساب لیا جانا چائیے، اگر عطاء الحق قاسمی کی تقرری کی مدت کا حساب لینا ہے تو پھر تمام کا حساب لیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔