بلاگ
Time 14 مارچ ، 2018

زرداری، کس پہ بھاری؟

مولانا فضل الرحمان درست کہتے ہیں کہ اب زرداری سب پر بھاری نہیں بلکہ جو زرداری پر بھاری ہے، وہی سب پر بھاری ہے—۔فائل فوٹو

جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے، میں اسے کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ اگر کوئی فلسطین کی آزادی کے لیے تحریک چلا رہا ہو اور جاکر نیتن یاہو کو اس تحریک کا قائد بنالے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟

اگر کوئی مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ساری زندگی سرگرم عمل رہا ہو لیکن آخر میں جاکر خادم حسین رضوی کے ہاتھ پر بیعت کرلے تو آپ اسے کیا نام دیں گے؟ 

اگر کوئی سیاست سے دوغلے پن اور خوشامد کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ساری زندگی جتن کرتا رہا ہو لیکن آخر میں جاکر نواز شریف کو اس تحریک کا قائد اور مشاہد حسین سید کو اپنا ساتھی بنالے تو اس شخص کی عقل پر کیا آپ ماتم نہیں کریں گے؟

اگر کوئی سیاست سے بدتمیزی کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ساری زندگی سرگرم عمل رہا ہو لیکن آخر میں جاکر عمران خان سے یہ توقعات وابستہ کرلے تو اس شخص کو آپ پاگل نہیں سمجھیں گے؟

اگر کوئی سیاست سے جھوٹ کو ختم کرنے کا متمنی ہو لیکن اس مشن کے لیے شیخ رشید احمد کو اپنا قائد بنالے تو خود اس شخص کو جھوٹا نہیں سمجھا جائے گا۔ یقین جانیے اس ملک کے حقیقی مالک آج کل یہی کر رہے ہیں اور اس لیے میں اس روش کو کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔

میاں نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر فارغ کیا جارہا تھا لیکن اس شخص کو ان کے خلاف تحریک کی قیادت سونپ دی گئی جو پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں کرپشن کے سمبل (Symbol) ہیں۔ 

اسی طرح سالوں سے عمران خان کو میاں نواز شریف کو آؤٹ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا تھا لیکن جاتے جاتے ان کو آصف علی زرداری کے قدموں میں بٹھا دیا گیا۔ نوازشریف کو آؤٹ کرنے کے مشن میں منتخب ایوانوں کو منڈیوں میں تبدیل کردیا گیا اور ظاہر ہے منڈیوں سے پھر رضاربانی نہیں بلکہ مانڈوی والا ہی نکلتا ہے۔ 

صادق اور امین ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن صادق سنجرانی مسلط کردیا گیا۔ وہ سنجرانی جو سید یوسف رضاگیلانی جیسے صادق اور نواب اسلم رئیسانی جیسے امین ہیں۔

 ایک ہفتہ پہلے خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے دو درجن ممبران صوبائی اسمبلی کو ایسے خریدا جیسے منڈی میں گدھوں کو خریدا جاتا ہے لیکن ہفتہ بعد پی ٹی آئی کے سینیٹرز کو ڈنڈے کے خوف سے بکریوں کی طرح ایک رسی میں باندھ کر مہار آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھمادی گئی۔

زرداری پر ایم پی ایز کی خریداری کا الزام عمران خان صاحب نے لگایا اور اپنے سینیٹرز کو ان کے قدموں میں بھی خود انہوں نے ڈالا۔ اب کوئی بابا ہی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ عمران خان اور زرداری میں صادق کون ہے اور امین کون؟

 کہتے ہیں کہ اس بے شرمی کا ارتکاب بلوچستان کی خاطر کیا گیا حالانکہ بلوچستان تو کیا پختونخوا اور فاٹا کی بھی اس سے بڑی بے توقیری اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی جو سینیٹ اور پھر چیئرمین کے انتخاب کے عمل میں کی گئی۔

دنیا کو پیغام دیا گیا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندے اپنی مرضی کے مالک نہیں بلکہ ڈنڈے یا دولت کے غلام ہیں۔ کیا یہ بلوچستان کی خدمت ہے؟ پختونوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ توپ اور ٹینک کے آگے بھی ڈٹ جاتے ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پختونخوا کے لوگوں کے منتخب ممبران نوٹ کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ پختونخوا کی خدمت ہے؟

فاٹا کے لوگ غیرت اور وفاداری کے لیے مشہور تھے لیکن سینیٹ انتخابات اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ان کے منتخب ممبران سب سے زیادہ بے ضمیر یا پھر نوٹ اور ڈنڈے کے آگے ڈھیر ہوجانے والے ہیں۔ کیا یہ قبائلیوں کی خدمت ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا راستہ خود میاں نواز شریف اور ان کے اتحادیوں نے ہموار کیا لیکن آصف زرداری اور عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میاں صاحب نے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کو نظرانداز کیا اور پارلیمنٹ کو رتی بھر اہمیت نہیں دی۔ بلوچستان اور پختونخوا میں اپنی جماعت پرتوجہ دینے کی بجائے انہوں نے بلوچستان اچکزئی صاحب اور ثناء اللہ زہری کو جبکہ پختونخوا مولانا فضل الرحمان اور اقبال جھگڑا کو ٹھیکے پر دے دیا جبکہ خود وسطی پنجاب کے وزیراعظم بن گئے۔ 

وہ چمچوں اور چاپلوسوں میں گھرے رہے اور پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ جس کے بعد بلوچستان میں کرپشن کی ایسی بدترین تاریخ رقم ہوئی کہ جب ثناء اللہ زہری اور اچکزئی صاحب کی پارٹی کو اقتدار سے نکالا گیا تو پورے بلوچستان میں دو بندوں نے بھی ان کے حق میں احتجاج نہیں کیا۔ جب اچکزئی صاحب کی جمہوریت میں ساری زندگی ان کے سیکریٹری کے طور پر کام کرنے والے اکرم شاہ لالہ گورنرشپ کے لیے نااہل اور ان کے سگے بھائی اہل قرار پائیں گے تو پھر یہی ہوگا کہ عثمان کاکڑ کی جگہ مانڈوی والا لائے جائیں گے۔

جب اتنی مار کھانے کے بعد بھی میاں نواز شریف ایک بلوچ حاصل بزنجو کو چیئرمین بنانے کے روادار نہ ہوں اور اب بھی ان کا انتخاب جنرل ضیاء الحق کا اوپننگ بیٹسمین اور اپنا تابعدار راجہ ظفرالحق ہو تو پھر ایسا ہی ہوگا اور رضا ربانی کی جگہ صادق سنجرانی سنبھالیں گے۔ 

تاہم افسوس یہ ہے کہ جس طریقے سے اب نواز شریف پر غصہ نکالا جا رہا ہے اور جس طرح زرداری اور عمران خان کے ذریعے سیاست کو بے توقیر کیا جارہا ہے، اس کی وجہ سے میاں نواز شریف مظلوم اور جمہوریت کی علامت بنتے جارہے ہیں اور شاید اس سے بڑا ظلم اس ملک اور قوم کے ساتھ کوئی نہیں کیا جاسکتا۔

حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو اس کے بعد زرداری کی سیاست کی تعریفیں کر رہے ہیں یا جو اب بھی عمران خان کو تبدیلی کی علامت باور کرا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زرداری سب پر بھاری نہیں۔ وہ سب کے مقابلے میں ہلکے ہو رہے ہیں۔ جس طرح وہ ڈکٹیشن لے کر غلامی کی سیاست کر رہے ہیں، اس طرح تو کبھی عمران خان نے بھی نہیں کی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ زرداری پیپلز پارٹی پر اور عمران خان اپنی پی ٹی آئی پر بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ امپائروں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر ایک ہفتے بعد عمران خان کو آصف علی زرداری کی امامت میں سیاسی نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑا کرنا ہے تو پھر کم از کم زرداری صاحب کو روکتے کہ وہ پختونخوا میں عمران خان کے ایم پی ایز کو نہ توڑیں۔

سینیٹ انتخابات سے ایک روز قبل بلاول سمیت پوری پارٹی التجائیں کر رہی تھی کہ رضاربانی کو امیدوار بنادیا جائے لیکن صرف 3 بندے یعنی آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف (تینوں وہی ہیں جن کے سروں پر کیسز کی تلوار لٹک رہی ہے) امپائر کے خاکے میں رنگ بھرنے کے حق میں تھے۔

عمران خان کو پہلے دن اسکرپٹ دیا گیا کہ چیئرمین پی پی پی اور ڈپٹی چیئرمین پی ٹی آئی کا ہوگا۔ اس کے لیے جہانگیر ترین کی زرداری صاحب کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کروائی گئیں لیکن جب کارکنوں اور میڈیا کا دباؤ آیا تو خان صاحب مکر گئے اور یہ تاریخی جملہ کہا کہ آصف علی زرداری کے ساتھ مل جانا ایسا ہے کہ میں اپنی پوری سیاسی جدوجہد پر خاک ڈال دوں۔ اگلے دن پھر امپائر کا دباؤ آیا تو خان صاحب پھر مان گئے لیکن چونکہ براہ راست پی پی پی کے چیئرمین کو ووٹ دینے سے شرما رہے تھے، اس لیے یہ کلیہ نکالا گیا کہ بلوچستان کے گروپ کا چیئرمین آگے لایا جائے گا۔ چنانچہ اسی دن بلوچستان والوں کو بلایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ چیئرمین کا خواب دیکھنا شروع کردیں۔

یہاں یہ مسئلہ آیا کہ صادق سنجرانی چونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے، اس لیے زرداری صاحب ان کی جگہ کسی اور کو سامنے لانا چاہ رہے تھے لیکن پھر جب امپائر نے دباؤ ڈالا تو زرداری بھی مان گئے۔ فاٹا کے سینیٹرز صبح نواز شریف کیمپ میں جاتے اور شام کو زرداری کے کیمپ میں، لیکن جب زرداری اور عمران خان کی ڈیل فائنل ہوگئی تو ان کو بھی حکم ملا کہ وہ سیدھے ہو کر بلوچستان کی امامت میں کھڑے ہوجائیں۔ یہی حکم ایم کیو ایم وغیرہ کو بھی ملا۔ ساتھ ساتھ ایک بار پھر پیسہ بھی استعمال ہوا، چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ اب سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی پر پیپلز پارٹی کے جیالے اور آصف علی زرداری کے تابعدار رضا ربانی کی جگہ کسی اور کے تابعدار صادق سنجرانی براجمان ہوں گے۔

 یوں زرداری صاحب کے قریبی دوست مولانا فضل الرحمان درست کہتے ہیں کہ اب زرداری سب پر بھاری نہیں بلکہ جو زرداری پر بھاری ہے، وہی سب پر بھاری ہے ۔ پیپلز پارٹی کی پہچان کرپشن ہے لیکن ہم جیسے لوگ اس کے اس سنگین جرم سے چشم پوشی اس بنیاد پر کر رہے تھے کہ اس کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ دوسروں کی نسبت زیادہ تھی اور رضاربانی، فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگ اس جماعت کی پہچان تھے لیکن اب جب فرحت اللہ بابر کو نکال کر اور رضاربانی کو بے عزت کرکے قمر زمان کائرہ جیسے جمہوریت پسندوں کا دل توڑا گیا تو پیپلز پارٹی میں بچا کیا؟

اسی طرح ہر کوئی جانتا تھا کہ عمران خان امپائر کے اشارے پر بدتمیزی کی سیاست کررہے ہیں لیکن بہت سارے لوگ ان کے اس گناہ سے اس بنیاد پر چشم پوشی کر رہے تھے کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک توانا آواز ہیں لیکن اب جب انہوں نے بھی بابر اعوان اور فردوس عاشق اعوان کو دست ہائے راست بنا کر آصف علی زرداری کو اپنا قائد مان لیا تو پھر لوگ ان سے کسی خیر کی توقع کیسے وابستہ کرلیں؟

یہ عجیب ملک ہے ۔پہلے دو عشروں تک ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی دشمنی میں میاں نواز شریف جیسوں کو آگے کرکے پارلیمنٹ اور سیاست کو بے وقعت کیا جاتا رہا اور اب میاں نواز شریف کی دشمنی میں آصف علی زرداری اور عمران خان کو آگے کرکے پارلیمنٹ اور سیاست کو بے وقعت کیا جارہا ہے۔ نہ جانے یہ کیسی حب الوطنی ہے؟


یہ تحریر 14 مارچ 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔