خیبر پختونخوا میں بس ریپڈ منصوبے میں کم سن بچے سے مشقت

 باجوڑ ایجنسی کا چودہ سالہ شہاب تعلیم حاصل کرنے کے بجائے کھدائی میں مصروف —.

خیبر پختونخوا حکومت کے میگا پراجیکٹ بس سروس میں باجوڑ ایجنسی کا 14 سالہ شہاب تعلیم حاصل کرنے کے بجائے کھدائی میں مصروف ہے۔

کم سن شہاب تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہے لیکن غربت کے باعث اسکول کا رُخ نہیں کر پاتا یہی وجہ ہے کہ وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہاب کا کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے یہاں والد کے ساتھ کام کرنے آتا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کے اس کی اجرت کتنی ملتی ہے، یہ میرے والد کو معلوم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اسکول جانے کا بے حد شوق ہے، پڑھ لکھ کر میں بھی کچھ بننا چاہتا ہوں لیکن گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے اور یہ خواب اب ناممکن لگتا ہے۔

سکول جانے کا بے حد شوق ہے، لیکن گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے—. کم سن شہاب

شہاب کے والد دنیا گُل کا کہنا ہے کہ تنہا گھر کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا،کوئی لگی بندی روزی نہیں اس لیے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لاتا ہوں جب کہ میں بھی اپنے بیٹے کو اسکول بھیجنا چاہتا ہوں لیکن مالی حالات آڑے آجاتے ہیں۔

والد دنیا گُل نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اخراجات زیادہ ہیں جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے اور پشاور میں روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔

دنیا گُل اور تمام مزدوروں کو فی میٹر کھدائی کرنے پر 160 روپے معاوضہ ملتا ہے۔

حالانکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے معاہدہ میں بچوں سے مشقت پر پابندی عائد کی تھی۔

 ایشیائی ترقیاتی بینک نے معاہدہ میں بچوں سے مشقت پر پابندی عائد کی تھی—.

پشاور سے بچوں کے حقوق کے سرگرم کارکن عمران ٹکر نے جیو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 5 سے 16 برس تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے لیکن یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ یہ بچے علم کے حصول کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 40 ایسی جگہیں ہیں جہاں کام کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ وہاں ہیوی مشینری استعمال کی جاتی ہے جیسے کے بس ریپڈ منصوبہ، ادھر  12 برس تک کہ کمسن بچوں کا کام کرنا منع ہے۔

 12 برس کے کم سن بچوں پر مکمل طور پر مزدوری کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں نے کہا ہے کہ حکومت صوبے میں اپنے طرز کے پہلے میگا پراجیکٹ میں بچوں سے مشقت لینے کا نوٹس لے اور اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرے۔ 

مزید خبریں :