20 مارچ ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، جو کل سنائے جانے کا امکان ہے۔
دوسری جانب پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے بعد کیس کی مزید سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنس پر سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
نواز شریف کی متفرق درخواست
سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے احتساب عدالت میں آج متفرق درخواست دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پہلے طے کرلیا جائے کہ واجد ضیاء کون سی چیزیں ریکارڈ پر لاسکتے ہیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دائر کی گئی تحریری درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ 3 حصوں پر مشتمل ہے، جس کا ایک حصہ دستاویزات، دوسرا حصہ بیانات اور تیسرا حصہ تجزیات پر مشتمل ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تفتیشی افسر رائے دینے کا حق نہیں رکھتا، گناہ اور بے گناہی کا تعین عدالت نے کرنا ہے، واجد ضیاء نے نہیں۔
مزید کہا گیا کہ حقائق اور آراء میں فرق ہوتا ہے۔
جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اس درخواست پر بحث کرلیں۔
نواز شریف کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کے سوالات کی روشنی میں تحقیقات کیں اور جس عمل کے تحت دستاویزات حاصل کی گئیں اس سے متعلق وضاحت ضروری ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ اگر واجد ضیاء نے گناہ اور بے گناہی سے متعلق رائے دی تو عدالت روک دے، تاہم قانون شہادت واجد ضیاء کو تحقیق سے متعلق وضاحت سے نہیں روکتا۔
سماعت کے بعد عدالت نے نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل (21 مارچ) کو سنائے جانے کا امکان ہے۔
واجد ضیاء کا بیان
اس سے قبل سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور عدالت میں شیزی نقوی کا بیان حلفی، حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان معاہدے کا خط، فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے تحت قائم کمپنیوں کی فنانشل دستاویزات، آف شور کمپنیوں سے متعلق فلو چارٹ، مختلف کمپنیوں کے مابین لین دین اور رقوم کی منتقلی کا ریکارڈ، متحدہ عرب امارات ایمبیسی کا جوابی خط، نیلسن، نیسکول اور کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ، جفزا اتھارٹی کا خط اور رابرٹ ریڈلی کی فرانزک رپورٹ بھی پیش کی۔
سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 3 کے اضافی آٹھ صفحات غائب ہیں۔
جس پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے کہا کہ اضافی آٹھ صفحات فراہم کردیئے جائیں گے۔
پاناما جے آئی ٹی سربراہ نے کیپیٹل ایف زیڈ ای میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ملازمت سے متعلق اقامہ اور جبل علی فری زون اتھارٹی کی جانب سے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ بھی عدالت میں پیش کیا۔
تاہم مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اعتراض کیا کہ قانون شہادت کے تحت اس دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جبل علی فری زون اتھارٹی کی دستاویزات نوٹری پبلک، پاکستان قونصل سے تصدیق شدہ نہیں۔
واجد ضیاء نے کہا کہ خط کے مطابق نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ کے چیئرمین تھے اور 10 ہزار درہم ماہانہ تنخواہ وصول کررہے تھے۔
مریم نواز کے وکیل نے جفزا اتھارٹی کے خط پر بھی اعتراض اٹھایا اور سوال کیا کہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ پبلک دستاویز ہے، پتہ نہیں چلتا کہ یہ خط کسے لکھا گیا ہے۔
جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ جفزا ویسے ہی اتھارٹی ہے جیسے پاکستان میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسیچینج کمیشن (ایس ای سی پی)۔
مریم نواز کے وکیل کے اعتراض کے ساتھ اقامہ سے متعلق دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔
واضح رہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان گذشتہ 3 سماعتوں سے جاری ہے، ان کا بیان مکمل ہونے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز جرح کریں گے۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس پر سماعت کل (21 مارچ) ہوگی، جہاں واجد ضیا پہلی مرتبہ بطور گواہ پیش ہوں گے۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔