کراچی میں سیاست کے بدلتے رنگ

کراچی: 1988ء کے بعد پہلی بار کراچی کی سیاست پرپیشگوئی کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔کون سی سیاسی جماعت شہر سے رواں سال عام انتخابات جیتے گی۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔

قومی اسمبلی کی 21 اور سندھ اسمبلی کی 40 نشستوں پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ کیونکہ پہلی بار میدان کھلا ہے۔ جہاں کراچی کی مقامی سمیت ملک کی قومی جماعتیں قسمت آزمائی کریں گی۔ ایم کیو ایم میں تقسیم کے عمل کے بعد پیدا خلاء کون سی سیاسی جماعت پر کرے گی؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ 

دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں مردم شماری مؤثر اورمناسب ہوتی تو اس کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں موجود تعداد سے بڑھ کر ہوتیں۔ لہٰذا کراچی کا ایک بہت بڑا ایشو اس کی اونر شپ (ملکیت) کابھی ہے۔ کراچی کامالک کون ہے؟ شہرکی سیاست کے بدلتے رنگ پر قریبی نگاہ ڈالتے ہیں۔ دیکھتے ہیں 2018کے عام انتخابات میں ممکنہ منظرنامہ کیا ہوگا؟

اس بارکراچی کے انتخابی نتائج 2008 اور2013ء جیسے نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ 2002 جیسے ہوسکتے ہیں۔ ماسوائے یہ کہ اس بار پارٹیاں مختلف ہوں گی۔ ایم کیو ایم نہیں تو اب متحد مجلس عمل بھی پہلے جیسی نہیں ہے۔2002ء میں جو کچھ ہوا، 1988کے بعد پہلی بار شہرکی سیاست میں بڑی تبدیلی دیکھنےمیں آئی تھی۔ 2008میں ایم کیوایم نے دوبارہ قدم جمائے لیکن 2013 میں اس کو دھچکا لگا جب تحریک انصاف نے شہر سے 8لاکھ ووٹ لے کر سیاست کے بدلتے رنگوں کا اشارہ دیا۔

1970کی دہائی میں سیاست زیادہ نظریاتی رہی۔ جب کراچی سے پارلیمانی نشستیں جماعت اسلامی، جے یو پی اور پیپلزپارٹی میں تقسیم ہوا کرتی تھیں جبکہ سیاست کراچی کے ایشوز پر ہوا کرتی تھی۔ 1960کی دہائی میں کراچی صوبے کے لئے تحریک بھی شروع کی گئی لیکن اس کی نوعیت لسانی نہیں تھی۔1970ء کی دہائی کے بعد جماعت اسلامی اورجمعیت علماء پاکستان نے سندھ لسانی بل اورکوٹہ سسٹم جیسے ایشوز پرپیپلزپارٹی کی مخالفت کی۔ 

اس طرح کراچی کی سیاست مہاجر اور سندھی میں تقسیم ہو گئی۔ ضیاء الحق کے دورمیں سندھ اور خصوصاً کراچی پر مذہبی جماعتوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ جماعت اسلامی کی جانب سے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی حمایت کے باوجود اس کے حامی ووٹ ڈالنے نہیں گئے۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما پروفیسر عبدالغفور احمدنے ریفرنڈم پر اپنی ناگواری بھی ظاہر کی۔ 

مذہبی جماعتوں کو دوسرا بڑا دھچکا 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں لگا جب نمایاں مذہبی سیاسی رہنما ہار گئے ۔ایم کیوایم نے 1987کے بعد پھر پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔ 1988ء کے عام انتخابات میں اس نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے، 1990 کے بھی عام انتخابات بڑی حد تک غیرمتنازعہ رہے اس کے بعد ایم کیو ایم اپنے ہی سیاسی کلچر کا ہدف بن گئی۔ عسکریت کے عنصر نے اسے بڑا نقصان پہنچایا۔ 

قتل و غارتگری کے باعث ایم کیو ایم نے اپنی ساکھ کھودی۔ جو اس کے بتدریج زوال کا باعث بنی۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی میں اپنی موجودگی ثابت کی۔ اپنےووٹ بینک اورانتخابی حلقوں کو برقرار رکھا۔ لیکن مہاجروں کے زیراثر علاقوں میں جگہ نہ بنا سکی۔ زیادہ تر انتخابات میں کراچی سے اس کی دو سے تین نشستیں رہیں۔ اب اسے توقع ہے وہ پانچ سے چھ نشستیں جیت جائے گی۔ حالیہ حلقہ بندیاں بھی اس کیلئے مفید ثابت ہوںگی۔ 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان میں کراچی کے شہریوں کو متاثر اور متوجہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جیسا کہ انہوں نے 2013کے عام انتخابات میں کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنا ووٹ بینک سنبھالنے میں بری طرح ناکام رہے۔ ناقص تنظیم اور پارٹی کے اندرونی جھگڑے تحریک انصاف کو لے ڈوبے۔ عمران خان اب کراچی کے ووٹرز کا اعتما د حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں ان کا کراچی سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ درست اقدام ہے۔ انہیں باصلاحیت امیدواروں کی تلاش بھی ہے۔

 ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی نے عمران خان کو ہوشیار کردیا تھا۔ اسی لئے انہوں نے کراچی پر توجہ دیناشروع کردی ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پاکستانیوں اورکراچی والوں کےلئے شناسا نام ہے لیکن کراچی کے بدلتے سیاسی رنگ میں یہ نام کس قدر مؤ ثر ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مصطفیٰ کمال اورانیس قائم خانی کی قیادت میں پاکستان سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کو بھی کراچی میں ایک مضبوط سیاسی قوت بن کرابھرنے کا یقین ہے۔ ان کے اعتماد کا اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ قبل از انتخابات پی ایس پی نے کسی سےاتحاد نہیں کیا۔ لیکن پی ایس پی اورتحریک انصاف ممکنہ ا تحادی کی حیثیت سے ایک دوسرے کیلئے دوستانہ جذبات رکھتے ہیں۔ دونوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی کو میٹروپولیٹن کی حیثیت دی جائے۔

سینئر صحافی مظہر عباس کا تجزیہ 21 مارچ 2018 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا

مزید خبریں :