نیب ریفرنسز: نواز شریف، مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے نیب ریفرنسز میں حاضری سے استثنیٰ کی دائر مسترد کردی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر  نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں 7 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ مانگا گیا تھا جب کہ بیگم کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی درخواست کے ساتھ لگائی گئی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ 26 مارچ سے ایک ہفتے کے لئے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے جب کہ اس دوران نواز شریف کی جگہ ان کے نمائندے علی ایمل اور مریم نواز کی جگہ ان کے نمائندے جہانگیر جدون پیش ہوں گے۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ کلثوم نواز کی کیمو تھراپی ہونی ہے جس کے لیے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو لندن جانا ہے جب کہ ڈاکٹرز نے بھی کہا کہ کلثوم نواز کے شوہر کو بلایا جائے۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی شدید مخالفت کی گئی اور کہا کہ ٹرائل اختتام کے قریب ہے اس لیے ملزمان کو جانے کی اجازت نہ دی جائے۔

عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعدازاں فیصلہ سناتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

واجد ضیاء کا بیان قلمبند

لندن فلیٹس ریفرنس میں پاناما جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ آہلی اسٹیل ملز کے 25 فیصد شئیرز فروخت معاہدے کی تصدیق کے لیے یو اے ای کو خط لکھا جس کے مطابق آہلی اسٹیل ملز کی فروخت کے معاہدے کا کوئی ریکارڈ نہیں اور اس کی فروخت پر 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشن کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

واجد ضیا نے بتایا کہ طارق شفیع سے متعلق 1980 کا 12 ملین درہم کے معاہدے کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں اور یہ مبینہ معاہدہ بھی قطری شہزادے کے ساتھ کیا گیا تھا اور یہی 12 ملین درہم ایون فیلڈ سمیت دیگر اثاثہ جات بنانے میں استعمال ہوئے۔

واجد ضیاء کے مطابق طارق شفیع نے بی سی سی آئی بینک سے ڈیفالٹر ہونے کے باوجود قرضہ لیا جس پر وکیل خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا اور سوال کیا کہ یہ قیاس آرائی ہے یا تجزیہ ہے۔

واجد ضیاء نے کہا کہ میں نے جو کام کیا وہ سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے 13 سوالات پر کیا، جے آئی ٹی رپورٹ میں ان 13 سوالوں کے جوابات دیے گئے۔

 خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جوابات صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کیلئے تھے، ان جوابات کو اس عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اسکریپ سے متعلق معاہدہ بھی پیش کیا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے بتایا کہ اسکریپ سے متعلق ایسا کوئی معاہدہ نہیں جب کہ جواب گذار نے اس حوالے سے غلط بیانی کی۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جج صاحب نے آپ کو منع کیا ہوا ہے پھر بھی آپ رائے دے رہے ہیں۔

جس پر فاضل جج محمد بشیر نے واجد ضیاء کو کہا کہ آپ دستاویزات پڑھے بغیر بیان دیں، ہمارے پاس سب دستاویزات موجود ہیں۔

واجد ضیاء نے دو قطری خطوط احتساب عدالت میں پیش کیے اور کہا کہ دونوں خطوط کی سپورٹ میں کوئی دستاویزات نہیں دی گئیں جب کہ ان خطوط میں تضاد بھی ہے تاہم وکلاء صفائی امجد پرویز اور خواجہ حارث نے کوئی اعتراض نہیں کیا، یہ دونوں خطوط سپریم کورٹ میں بھی دیے گئے تھے۔

واجد ضیا نے کہا کہ طارق شفیع کی جانب سے جمع کرایا گیا معاہدہ جھوٹا اور جعلی ہے، متحدہ عرب امارات کے مطابق طارق شفیع معاہدے کی تصدیق کا بھی ریکارڈ نہیں ملا۔

 اس موقع پر مریم نواز کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ واجد ضیاء ایم ایل اے سے پڑھ کر بیان لکھوا رہے ہیں جس پر فاضل جج نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ آپ دستاویزات دیکھ سکتے ہیں، پڑھ نہیں سکتے۔

بعدازاں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت منگل27 مارچ تک کے لئے ملتوی کردی۔

مزید خبریں :