22 مارچ ، 2018
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 'نیچر فار واٹر' کے عنوان سے پانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستان میں سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی دریاؤں میں آتا ہے، جس میں سے ذخیرہ کرنے کی سہولت صرف 9 فیصد ہے جبکہ تقریباً 30 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جارہا ہے، لہذا ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں اس معاملے پر جنگی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔
بلوچستان میں بھی خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر جانے سے قلت آب کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ڈیمز اور ری چارجنگ پوائنٹس نہ بنائے گئے تو صوبہ صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔
بلوچستان میں نصف صدی قبل کاریز اور چشموں کا پانی دور دور تک بہتا دکھائی دیتا تھا اور 20 سے 25 فٹ کے فاصلے پر کنوؤں کی کھدائی پر پانی نکل آتا تھا لیکن پھر صوبے میں بجلی کے آتے ہی دھڑا دھڑ ٹیوب ویل لگنا شروع ہوگئے۔
دوسری جانب حکومت نے نہ تو ڈیمز بنائے اور نہ ہی غیر قانونی ڈرلنگ کو روکنے کے لیے قانون سازی کی، اب صورتحال یہ ہے کہ اس وقت صوبے کے طول وعرض میں 6 ہزار سے زائد ٹیوب ویلز پانی نکال رہے ہیں اور رہی سہی کسر طویل خشک سالی اور آبادی کے اضافے نے پوری کر دی ہے۔
بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح 2 ہزار فٹ تک گر جانے سے بیشتر اضلاع میں زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کوئٹہ اور گوادر کے باسیوں کو پینے کے پانی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ماہرین نے بھی یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زمین سالانہ 10 سینٹی میٹر دھنس رہی ہے۔
کوئٹہ کے باسیوں کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واسا کے حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پانی کی ضرورت 5 کروڑ گیلن روزانہ ہے مگر واسا کی جانب سے شہریوں کو 3 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ 2 کروڑ گیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
کوئٹہ شہر میں واسا کے 417 ٹیوب ویلز ہیں جن میں 100 کے لگ بھگ ٹیوب ویلز خراب ہوچکے ہیں۔
واسا حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے منگی ڈیم پر کام جاری ہے، جو 2 سال میں مکمل ہو جائے گا، اس ڈیم سے شہر کو یومیہ 8 کروڑ گیلن پانی مل سکے گا، جس سے شہر میں پانی کا مسئلہ کچھ عرصے کے لیے حل ہوجائے گا۔
ماہرینِ آب کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جو پانی استعمال کیا جارہا ہے وہ آئندہ نسلوں کے حصے کا پانی ہے۔
قلت آب کے باعث صوبے سے لوگوں کی ہجرت روکنے کے لیے حکومت کو ڈیموں اور ری چارجنگ پوائنٹس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک جامع آبی پالیسی بھی نافذ کرنا ہوگی۔