کراچی کا کرکٹ دیوانہ

کرکٹ کے کچھ دیوانے ایسے بھی ہیں جو بچپن سے کرکٹ اسٹیڈیم میں دیکھتے آئے ہیں اور گراؤنڈ میں دیکھے گئے ہر میچ کے لمحات ان کی آنکھوں میں بسے ہیں۔

کراچی میں کرکٹ کی واپسی شہریوں کے لیے بڑا تحفہ ہے۔ شہر قائد میں 9 سال بعدکرکٹ کا ایک بڑا مقابلہ ہورہا ہے جس میں کرکٹ کے دیوانوں کو بڑے عرصے بعد موقع ملے گا کہ وہ ملکی اور اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو میدان میں اپنے سامنے کھیلتے دیکھیں گے۔

کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم ملک کے کھیلوں کے گراؤنڈ میں ایک قدیم گراؤنڈ ہے جہاں کرکٹ کے کئی تاریخی میچز کے ساتھ ایشیاء کپ جیسا بڑا ٹورنامنٹ بھی ہوچکا ہے۔کراچی میں ہر عمر کے لوگ کھیلوں سے محبت کرتے ہیں اور خاص طور پر کرکٹ کے دیوانے ہیں۔

یہاں ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے کم عمری میں اپنے بڑوں کے ساتھ جاکر نیشنل اسٹیڈیم میں میچز دیکھے اور دنیا کے نامی گرامی کھلاڑیوں کو کھیلتے دیکھا ۔یہ وہ دور تھا جب کرکٹ ٹیسٹ میچ تک محدود تھی یا پھر کچھ نمائشی مقابلے ہوتے تھے لیکن رفتہ رفتہ کرکٹ کے رجحانات اور فارمیٹ میں جو تبدیلیاں آئیں اس نے کایا پلٹ دی۔

جیسے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اعلان ہوا کہ اس بار پی ایس ایل تھری کا فائنل مقابلہ کراچی میں ہوگا تو ہر شہری کے دل میں اسٹیڈیم جا کر میچ دیکھنے کی خواہش جاگ گئی، ایسے میں کچھ شائقین ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اکثریت ناکام، اور کچھ ایسے بھی تھے جو آخر تک ٹکٹ کے حصول کی تگ و دو میں لگے رہے۔

کرکٹ کے کچھ دیوانے ایسے بھی ہیں جو بچپن سے کرکٹ اسٹیڈیم میں دیکھتے آئے ہیں جن کا کرکٹ سے ایسا لگاؤ ہے کہ گراؤنڈ میں دیکھے گئے ہر میچ کے لمحات ان کی آنکھوں میں بسے ہیں۔

ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں ہماری ملاقات عمر مختار نامی نوجوان سے ہوئی جنہوں نے کرکٹ سے اپنی محبت اور شوق کا برملا اظہار کیا اور وہ پی ایس ایل 3 کا فائنل پشاور زلمی بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ دیکھنے کے لیے بارہ ہزار کا ٹکٹ بھی خرید چکے ہیں۔

عمر مختار نے تو ٹکٹ باآسانی حاصل کرلیا لیکن انہیں اس بات کا احساس ہے کہ شائقین کو ٹکٹ کے لیے کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

وہ  اس بات پر تنقید کرتے نظر آئے کہ جو ٹکٹ 2009 میں 3 ہزار کا ملتا تھا آج اسے پی سی بی نے عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا جو کہ کرکٹ کے شائقین کے لیے مایوسی کا سبب ہے۔

29 سالہ عمر مختار کو کرکٹ کا ایسا جنون ہے کہ وہ اب تک 18 بین الاقوامی میچز نیشنل اسٹیڈیم میں جا کر دیکھ چکے ہیں اور اب وہ 19 واں میچ یعنی پی ایس ایل تھری کا فائنل دیکھنےکے لیے بے تاب ہیں۔

عمر مختار نے بتایا کہ انہوں نے 1997 میں 6 برس کی عمر میں اپنے نانا کے ساتھ نیشنل اسٹیڈیم میں پہلا میچ دیکھا جو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تھا ۔ان کے نانا جمیل یار خان قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تھے لیکن کرکٹ کے بھی بڑے شوقین تھے اور یہی شوق ان کے نواسے میں منتقل ہوا۔

پہلا میچ دیکھنے کے بعد ان کا شوق اتنا بڑھا کہ کراچی میں جب بھی کوئی میچ ہوتا اسے دیکھنے کے لیے وہ دوڑے چلے جاتے، چاہے ان کے ساتھ کوئی جائے یا نا جائے، اور ان کا یہی شوق اب بھی برقرار ہے۔

انہوں نے نیشنل اسٹیڈیم میں ٹیسٹ میچز سمیت ون ڈے اور ایشیا کپ کے میچز بھی دیکھے ہیں جس کی یادیں ان کے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔

عمر مختار گراؤنڈ میں جاکر ناصرف میچز دیکھتے بلکہ جیسے ہی موقع ملتا گراؤنڈ میں اتر جاتے ،کھلاڑیوں سے ملاقات کرتے، ہاتھ ملاتے اور ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کی پوری کوشش کرتے اور اکثر کامیاب بھی ہوئے ۔ان کے پاس کئی قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر بھی موجود ہیں اس کے ساتھ کمنٹیٹرز کے ساتھ بھی تصویر بنوالیتے۔

ان کے پاس کرکٹ کی یادیں تصاویر سمیت یادگار سچن ٹنڈولکر کے آٹوگراف کی شکل میں بھی موجود ہیں جس پر ان کا نام نمایاں ہے۔

عمر مختار نے جہاں میچز میں کھلاڑیوں کو ریکارڈ قائم کرتے ہوئے دیکھا وہیں کچھ کے ڈیبیو میچز بھی دیکھے جن میں سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کا بھی ڈیبیو میچ شامل ہے۔

 کئی سال گزر گئے لیکن اس کے باوجود بھی عمر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ میں شعیب اختر کا اسٹمپ آؤٹ کرنا نہیں بھولا، وہ لمحہ اتنا یادگارہے کہ اس کا عکس آج بھی ان کی آنکھوں میں ہے۔

عمر جب کرکٹ کے دلچسپ مقابلوں کو یاد کرتے ہیں تو انہیں پاک انڈیا ٹیسٹ سیریز ضرور یاد آتی ہے جس میں محمد آصف نے بہترین بلے باز سچن ٹنڈولکر اور راہول ڈریوڈ کو ایسا آؤٹ کیا کہ پھر بھارتی ٹیم سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

پاکستان کا آسٹریلیا سے مقابلہ ہو، یا سری لنکا، غرض کہ نیشنل اسٹیڈیم کا کوئی میچ ایسا نہیں جسے دیکھنے کے لیے عمر اسٹیڈیم نا پہنچے ہوں۔

کراچی میں 2007ء ہونے والا ایشیاء کپ بھی سب کی توجہ کا مرکز تھا جس میں شائقین کی شرکت غیر معمولی تھی۔اس وقت گراؤنڈ میں پچ سے لے کر اسٹیڈیم کی سیٹیں اور انتظامات بہتر طور پر ہوا کرتے تھے یہاں تک کے ٹکٹ بھی باآسانی بینک یا اسٹیڈیم سے ہی مل جاتے تھے۔

عمر بتاتے ہیں کہ اس وقت اتنی تیاریاں نہیں ہوتی تھیں کہ کھلاڑیوں کے پوسٹر سے پورا شہر سجایا گیا ہو بلکہ کوئی بھی بین الاقوامی ٹیم آکر کرکٹ کھیلتی اور اپنے ملک روانہ ہو جاتی کیونکہ اس وقت کرکٹ بحال تھی، پرسکون ماحول ہوتا تھا، امن کی فضا تھی، دہشت گردی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ آج جو حفاظتی انتظامات ہیں وہ پہلے نہیں ہوتے تھے۔

عمر کے شوق کا یہ عالم ہے کہ جب کرکٹ پاکستان میں بحال نہیں ہوئی تھی تو انہوں نے پی ایس ایل کے میچز دبئی جاکر دیکھے اور جب لاہور میں میچز ہوئے تھے تو وہاں بھی دوڑے چلے گئے اور اب 9 سال بعد اپنے شہر میں دوبارہ کرکٹ کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں جس کی خوشی ان کے چہرے پر عیاں ہے۔

عمر کہتے ہیں کہ:

 پاکستان میں کرکٹ کی بحالی ضروری ہے کیونکہ کھیل ایک ایسی سرگرمی ہے جس سے عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

عمر کی خواہش ہے کہ پاکستان سپر لیگ میں بھارتی کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جائے اور بھارتی ٹیم کو پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے لیے مدعو کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوسکیں۔ان کے مطابق یہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان کا مثبت چہرہ دکھایا جاسکتا ہے۔

بیشتر کرکٹ فین کی طرح عمر مختار کے بھی پسندیدہ کھلاڑی بوم بوم شاہد آفریدی ہیں تو اس لحاظ سے وہ کراچی کنگز کے ساتھ تھے لیکن کنگز فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی تو اب یہ پشاور زلمی کو سپورٹ کررہے ہیں۔

عمر مختار کو افسوس تو ہے کہ کراچی کنگز فائنل تک نہیں آسکی لیکن اس بات کی بے حد خوشی بھی ہے کہ کراچی میں کرکٹ کی واپسی ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ تمام غیر ملکی کھلاڑیوں کو سراہتے ہیں جو پی ایس ایل کھیلنے پاکستان آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ وہ ڈیرن سیمی سے متاثر ہیں جس کی اہم وجہ ڈیرن سیمی کی پاکستان کے لیے عزت اور محبت ہے جو دوسرے کھلاڑیوں میں انہیں اب تک نظر نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ وہ اب زلمی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

پی ایس ایل سیزن تھری کے فائنل کے لیے کراچی کے ہر شہری کا جوش و جذبہ قابل دید ہے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی لوگ کرکٹ کو اسٹیڈیم جا کر دیکھنا ہی پسند کرتے ہین۔شہریوں کے جنون کا یہ عالم ہے کہ شہر میں لگے کھلاڑیوں کے پوسٹرز کے ساتھ ہی سیلفیز بنا رہے ہیں اور ان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔

یہ ماحول پاکستان میں پُر امن فضاء کی نشانی ہے جس سے لوگوں کے چہرے کھلکھلا اٹھے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کی دلی خواہش ہے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے خاص طور پر کرکٹ کو اور وہ پر عزم ہیں کے وہ دن دور نہیں جب ملک کے ہر شہر میں کرکٹ بحال ہوگی اور پی ایس ایل سمیت بین الاقوامی سیریز بھی پاکستان میں کھیلی جائیں گی۔