ملاباغ کے علاقے میں کچے راستے، پانی، تعلیم اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی نے مکینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔
30 مارچ ، 2018
کرم ایجنسی کے دارالحکومت پارا چنار سے چند کلو میٹر دور علاقے ملا باغ کے عوام اس جدید دور میں بھی پتھر کے دور کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، کچے راستے، پانی، تعلیم اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی نے مکینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔
پارا چنار شہر سے صرف سات کلو میٹر دور ملا باغ کا علاقہ جو کہ قدرتی حسن کا شاہکار ہے جس کے پہاڑی سلسلے معدنیات سے مالا مال ہیں مگر یہ علاقہ حکومتی عدم توجہ کے باعث کئی مسائل کا شکار ہے۔
پارا چنار شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے مشہور ہوا جو اب بھی موجود ہیں جس کے سائے تلے قبیلے کے لوگ آکر بیٹھتے اور ایک دوسرے سے بات چیت کیے کرتے تھے۔
درجہ حرارت کے اعتبار سے یہاں موسم گرما میں درجہ حرارت کم اور موسم سرما میں سخت سرد علاقہ شمار ہوتا ہے۔
دلکش قدرتی مناظر کے حامل پارا چنار کے لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے لیکن شہر سے کچھ دوری پر واقع ملا باغ کا علاقہ ہمیشہ نظرانداز رہا ہے۔
1952 میں ملا باغ کے علاقے میں قائم ہونے والے گرلز اور بوائز پرائمری اسکول آج تک اپ گریڈ نہیں ہوئے جس کی وجہ سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچے تعلیم کے حصول سے اکثر محروم رہ جاتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم کے لئے والدین نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک مکین اسرار حسین کا کہنا ہے کہ 1952 میں بننے والا پرائمری اسکول ہی علاقے کا واحد تعلیمی ادارہ ہے، ہماری داد رسی کے لئے کوئی موجود نہیں، خدارا ہمارے بچوں پر رحم کیا جائے۔
اسرار حسین نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ملا باغ کے علاقے میں مڈل اور ہائی اسکول کو اپ گریڈ کیا جائے تاکہ لوگ علاقہ چھوڑ کر جانے کے بجائے وہیں اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرسکیں۔
علاقے کے ایک اور باشندے گلاب خان کہتے ہیں کہ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ان کے مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں، علاقے میں قائم محکمہ صحت کی ایک ڈسپنسری موجود ہے لیکن اس میں ڈاکٹرز نہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو علاج کے لئے پشاور لے جانا پڑتا ہے۔
قبائل کا کہنا ہے کہ ملا باغ سے پارا چنار شہر تک علاقوں کو پانی کی فراہمی کی لائنیں موجود ہیں لیکن ان میں پانی نہیں جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔
ملا باغ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی توجہ کے منتظر ہیں اور مسائل حل نہ ہونےکی صورت میں دوسرے خاندانوں کی طرح وہ بھی نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔