بلاگ
Time 12 اپریل ، 2018

پاکستان میں 'چائنا اسپیڈ' سے جاری کام اور ماحولیاتی آلودگی

جنوری 2018 میں لی گئی اس تصویر میں چینی صوبے زی جیانگ کے ایک ریلوے اسٹیشن پر مسافر اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے کے لیے جارہے ہیں—فوٹو/ آئی این پی

حالیہ چند برسوں کے دوران ہمارا پڑوسی ملک چین فضائی آلودگی سے نمٹنے والے ممالک میں سرفہرست ہے، اس سے قبل چین سے سامنے آنے والی تصاویر میں آلودہ دھند (اسموگ) کا راج نظر آتا تھا۔

میں 2012 سے 2017 کے دوران چینی دارالحکومت بیجنگ میں رہائش پذیر تھا، جہاں میں نے چین کی ترقی کے سفر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس عرصے کے دوران ہزاروں کلومیٹرز پر مشتمل ہائی ویز اور ریلوے لائنوں کے جال بچھا دیئے گئے، وہ جگہیں جہاں پہلے کچھ نہیں تھا، وہاں نئے شہر تعمیر کردیئے گئے اور لاکھوں لوگوں نے وہاں آکر ان شہروں کو راتوں رات آباد کردیا۔

یہی سب کچھ اب پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہمارے دوست پڑوسی ملک چین کی زیر نگرانی ملک میں انفراسٹرکچر کے بڑے بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں، بڑی بڑی شاہراہیں بنائی جارہی ہیں، ریلوے نیٹ ورک کے جال بچھائے جارہے ہیں، ہائیڈرو پاور کے لیے دریاؤں پر ڈیم بنائے جارہے ہیں جبکہ صحراؤں سے زیر زمین کوئلہ نکالنے سمیت دیگر پروجیکٹس بھی شروع کیے گئے ہیں۔

کراچی کے ساحل کے ساتھ بڑی بڑی کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں جبکہ ہر بڑے شہر کے گردونواح میں بھی نئی بستیاں بسانے کا عمل جاری ہے۔

ترقی کی اس رفتار کو 'چائنا اسپیڈ' کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قدرتی طور پر یہ نام اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس سارے عمل میں چین 'ڈرائیونگ سیٹ' پر موجود ہے۔

'ون بیلٹ، ون روڈ' منصوبے کے تحت چین-پاک اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) پر کام تیزی سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں پاکستانی 'چائنا اسپیڈ' سے ایکسپریس ویز پر کام ہوتا دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی کھڑکیوں سے باہر موجود فضاء، شہر اور قصبے دھند آلود ہوا یعنی اسموگ میں جکڑے جاچکے ہیں۔

رواں موسم سرما میں لاہور میں فضائی آلودگی 1077 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی۔

درحقیقت اکتوبر 2017 سے لے کر اب تک پنجاب میں فضائی آلودگی، پاکستان انوائرنمٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے بیان کردہ سیفٹی حد سے باہر رہی۔ اس آنکھوں کو جلانے اور سانس لینے میں دشواری پیدا کرنے والی خطرناک ہوا کو سردی، گرمی، بہار اور خزاں کے ساتھ اب ہمارا 'پانچواں موسم' قرار دیا جارہا ہے۔

اس 'سیزن' کے دوران اسموگ اتنی شدید ہوتی ہے کہ حد نگاہ ختم ہوجانے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوجاتی ہے، جہاز لینڈ نہیں کرسکتے اور لوگ ملازمتوں پر نہیں جاسکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس موسم میں اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، خاص کر امراض قلب اور دمے کے مریض اس موسم میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ کو ایمرجنسی میں اپنے کسی پیارے کو دیکھنے کے لیے اسپتال جانا ہو، جسے اسموگ کی وجہ سے انجائنا کا اٹیک ہوا ہے، لیکن حد نگاہ کم ہونے کی وجہ سے آپ وہاں جا ہی نہ سکیں۔

آہستہ آہستہ یہ اسموگ بچوں میں پھیپھڑوں کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتی ہے اور اس سے آنے والی نسلوں میں جینیاتی خرابیوں کے بھی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کے معاشی اثرات قریباً 50 ارب ڈالر کے برابر ہیں، جو ہماری جی ڈی پی کا 6 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ 35 ہزار اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں، جو ہمارے ملک میں بیماریوں اور اموات کی ایک بڑی وجہ بنتی جارہی ہے۔

ایک شہری گروپ نے 2016 میں لاہور ہائی کورٹ میں فضائی آلودگی جیسے 'خاموش قاتل' کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی تھی۔

اس پٹیشن پر سماعت کے بعد 14 نومبر 2017 کو لاہور ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ 3 ماہ کے اندر اسموگ کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے پالیسی جمع کروائیں اور ایک اسموگ کمیشن تشکیل دیں۔

4 ماہ بعد 15 مارچ کو جسٹس عائشہ ملک نے اس ڈیڈ لائن میں 17 اپریل تک توسیع کردی، لیکن یہ رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی، میرا خیال ہے کہ یہاں 'چائنا اسپیڈ' کا فارمولا قابل اطلاق نہیں ہے۔

دوسری جانب بیجنگ نے بازی ہی پلٹ دی ہے اور چند سالوں میں بننے والی پالیسیز سے جلد اور فوری نتائج دیکھے جاسکتے ہیں۔ چین ماحولیاتی مینجمنٹ میں قائدانہ ساکھ بنا رہا ہے۔ بیجنگ کا آسمان دوبارہ سے نیلا ہوگیا ہے اور پوری دنیا حیران ہے کہ چین آلودگی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے، لیکن کیا پاکستان اس طرف دھیان دے رہا ہے؟


عابد عمر پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے بانی ہیں، وہ @abido کے ہینڈل سے ٹوئیٹس کرتے ہیں۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔