پاکستان کی تباہ ہوتی وادی پکھل

بہتے چشمے اور پہاڑوں پر واقع چیڑ کےدرخت وادی کو حسن بخشتے ہیں لیکن یہ قدرتی حسن انسانی آسائش،غفلت اور لاپرواہی کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے۔

خیبرپختونخوا کا ضلع مانسہرہ حسین قدرتی مقامات سے مالا مال ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح ناران، کاغان، شنکیاری اور چھترپلین سمیت دیگر مقامات کی سیر کے لئے رخ کرتے ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ، لہلہاتا سبزہ اور بہتے چشمے اس علاقے کا حسن ہیں جنہیں دیکھ کر انسان پر سحر طاری ہوجاتا ہے، یہاں کے دلکش مناظر کو دیکھنے والا قدرت کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں پاتا۔

پہاڑوں کے دامن میں ہونے کی وجہ سے اس ضلع کو مقامی سطح پر 'پکھل' بھی کہا جاتا ہے، یہاں سرسبز و شاداب بلند پہاڑوں کے علاوہ برف پوش پہاڑ بھی ہیں جن سے بہتے چشمے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے کہیں ایک ساتھ ملتے ہیں اور کہیں جدا ہوتے ہوئے تربیلا ڈیم میں جاگرتے ہیں۔ 

یہی چشمے اور پہاڑوں پر موجود چیڑ کے درخت اس علاقے کو حسن بخشتے ہیں لیکن اب یہ قدرتی حسن انسانی آسائش، غفلت اور لاپرواہی کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے۔

فوٹو: راقم الحروف

ٹمبر مافیا کی جانب سے جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے وادی کا واحد حسن بہتے چشمے اور نہریں رہ گئی تھیں جنہیں اب انفرادی طور پر ہر شخص تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

ضلع میں دو بڑی نہریں بہتی ہیں، ایک بفہ اور دوسری ناران کاغان سے بہنے والی نہر ہے، یہ دونوں نہریں خاکی کے مقام پر ایک ساتھ ملتی ہیں اور مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی تربیلا ڈیم میں جاگرتی ہیں۔

فوٹو: راقم الحروف

بفہ نہر میں پانی، پہاڑی سلسلے جبوڑی سے آتا ہے جو اچھڑیاں پہنچنے کے بعد آبادی کے بیچ و بیچ سے ہوتا ہوا شنکیاری کے مقام پر خوبصورت نہر کی صورت اختیار کرجاتا ہے، مقامی لوگ ان نہروں کو 'سرن' بھی کہتے ہیں۔

شنکیاری میں ہی مشہور برانڈ کی چائے کا پلانٹ ہے جس کے پڑوس سے گزرتی نہر علاقے کی خوبصورتی میں صرف اضافہ ہی نہیں کرتی بلکہ مقامی سطح پر پانی کو روک کر ایک جھیل بھی بنائی گئی ہے جو لوگوں کے لئے تفریح کا ذریعہ ہے۔

ڈھوڈیال کے قریب نہر میں آٹے کی چکی کے باٹ اور پتھر رکھ کر گزرگاہ بنائی گئی ہے—۔ فوٹو: راقم الحروف

تیز رفتاری سے بہنے والے اسی پانی کو لوگ آٹے کی چکی چلانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں، شنکیاری میں ہی سرن کے پانی پر ایک چکی بنائی گئی ہے جس کے باٹ پانی کے بہاؤ سے گھومتے ہیں۔ 

اپنی آب و تاب کے ساتھ بہتا پانی بفہ کے مقام پر جمع ہوتا ہے اور بفہ کو دیگر علاقوں سے ملانے والے پل کے نیچے سے گزرتا ہے لیکن ستم ظریفی ہے کہ ان ہی دلکش اور خوبصورت نہروں میں مقامی افراد نے گٹر لائنیں نکالنا شروع کردیں اور تمام تر کوڑا کرکٹ ان نہروں میں تلف کیا جانے لگا ہے۔

گٹر لائن سے پانی نہروں میں شامل ہورہا ہے—. فوٹو: راقم الحروف
ایک گھر سے نہر میں نکلنے والی گٹر لائن—.فوٹو: راقم الحروف

وہ چشمے، سرنیں اور نہریں، جن میں کبھی صاف شفاف پانی بہتا تھا، راہگیر ان چشموں کا پانی پیتے، اسے وضو کے استعمال میں لاتے اور یہی پانی لوگوں کے گھروں کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا، لیکن اب اس میں نجس پانی کی آمیزش ہورہی ہے۔

پہاڑ سے نکلنے والے چشمے میں گٹر لائنوں کا پانی مل چکا ہے—۔ فوٹو: بشکریہ فراز احمد


آلودہ پانی کی نہر کے قریب بچے موجود ہیں—. فوٹو: بشکریہ فراز احمد
سرسبز وادی میں بہتی نہروں میں اب آلودہ پانی ہی دکھائی دیتا ہے—.فوٹو: بشکریہ فراز احمد

موسم سرما میں بالائی علاقوں میں برفباری کے باعث نہروں اور سرنوں کے بہتے پانی میں خاصی کمی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے سرنوں میں گندا پانی دکھائی دیتا ہے، اس کے برعکس موسم گرما میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گٹر لائنوں سے آنے والا پانی بہہ جاتا ہے۔

بٹ پل کے قریب پھینکا جانے والا کچرا—۔فوٹو: راقم الحروف
تعمیراتی ملبہ نہر میں پھینکا جارہا ہے—۔فوٹو: راقم الحروف

بات اگر صرف گندے پانی کی ہوتی تو اس پر قابو پانا کسی حد تک آسان تھا لیکن اب تعمیراتی عمارتوں کا ملبہ، کچرے کے ڈھیر اور دیگر گند کو تلف کرنے کے لئے بھی ان ہی سرنوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔

دو دہائی قبل تک ضلع کے بیشتر دیہی علاقوں میں باتھ روم کا تصور تک نہ تھا اور لوگ رفع حاجت کے لئے کھیتوں کا رخ کرتے لیکن اب ایسا نہیں رہا، چند سال قبل تک لوگوں نے گندے پانی کی نکاسی کے لئے اپنے گھروں سے باہر یا گھروں کے صحن میں ہی بڑے بڑے حوض بنا رکھے تھے جو بطور گٹر استعمال ہوتے لیکن اب حوض کے بجائے طویل پائپ لائنوں کی مدد سے گندے پانی کو سرنوں اور نہروں میں ڈالنا شروع کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے مختلف امراض بھی جنم لے رہے ہیں۔

زمیندار لقمان سواتی —.فوٹو: راقم الحروف

مانسہرہ کے ہی دور دراز گاؤں ترنین کے رہائشی زمیندار لقمان سواتی اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتے قدرتی حسن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا بچپن انہی نہروں اور سرنوں میں نہاتے گزرا ہے لیکن اب نئی نسل کو ان نہروں میں وہ تفریح میسر نہیں کیوں کہ وہاں سے اٹھنے والی بو کی وجہ سے بچوں نے نہروں اور سرنوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

لقمان مزید کہتے ہیں کہ اگر نہری نظام پر خصوصی توجہ دی جائے اور سرنوں میں آلودہ پانی اور کوڑا پھینکنے کے سلسلے کو روکا جائے تو اس علاقے کا حسن دوبارہ لوٹایا جاسکتا ہے۔

نہروں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے سے صرف قدرتی حسن ہی تباہ نہیں ہورہا بلکہ اس کی وجہ سے کھیتی باڑی کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، نہری زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے نہروں کا پانی استعمال کیا جاتا ہے اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے پٹواری نظام کے تحت ہر زمیندار کا دن مقرر ہوتا ہے جس پر اسے پانی دیا جاتا ہے۔

زمیندار کو ہفتے یا دو ہفتے میں ایک بار چند گھنٹوں یا منٹوں کے حساب سے پانی ملتا ہے، نہروں میں گند کچرا پھینکے جانے سے پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے زمینیں مکمل طور پر سیراب نہیں ہوپاتیں جس کی وجہ سے انہیں مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

گٹروں سے آنے والا پانی نہروں میں مل رہا ہے—. فوٹو: راقم الحروف
نہروں میں نجس پانی اور گندگی دیکھی جاسکتی ہے—.فوٹو: راقم الحروف

اس حوالے سے ایک مقامی زمیندار شکیل سواتی کا کہنا تھا کہ نہروں میں کوڑا پھینکے جانے کے باعث آلودہ پانی نہ صرف زمینوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے زمین میں پھینکے جانے والے یوریا کا اثر بھی زائل ہوجاتا ہے، بیج کو یوریا نہ ملنے کی وجہ سے ان کی فصل متاثر ہوتی ہے اور مناسب قیمت بھی نہیں ملتی۔

اگرچہ ضلعی اور صوبائی حکومت نے تو جگہ جگہ پینافلیکس آویزاں کر رکھے ہیں جن کے ذریعے لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قدرتی حسن کی حفاظت کریں اور درختوں کی کٹائی نہ کریں، لیکن قدرتی حسن کے تحفظ کے لئے صرف پینافلیکس آویزاں کردینا کافی نہیں،  اس کے لئے عملی طور پر نہ صرف اقدامات کرنا ہوں گے بلکہ قانون سازی بھی کرنا ہوگی۔